Saturday, January 3, 2015

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اِتنی مَداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کِتنی ملاقاتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خُون کے دھبّے دُھلیں گے، کتنی برساتوں کے بعد

تھے بُہت بےدرد لمحے ختمِ دردِ عِشق کے
تھیں بُہت بے مہر صُبحیں، مہرباں راتوں کے بعد

دِل تو چاہا، پر شکستِ دِل نے مُہلت ہی نہ دی
کُچھ گِلے شِکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد

اُن سے جو کہنے گئے تھے، فیض جاں صدقہ کِیے
ان کہی ہی رہ گئی، وہ بات سب باتوں کے بعد 

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...