Monday, 16 February 2015

In Khaili Bazi Ki Haar

ان کھیلی بازی کی ہار
تینتس برس پہلے
ایسی ہی کسی رت میں
دو خواب سی آنکھوں نے اک بات کہی مجھ سے اس بات کے مطلب کے
اڑتے ہوئے رنگوں کا مفہوم سمجھنے کو
کیا شام وسحر گزرے 
اس رمز کی رم جھم میں
میں روح تلک بھیگا
سر سبز ہوا ایسا
موسم مری گلیوں میں خوشبو کی طرح پھیلے شاداب نظر گزرے
وہ بات رہی روشن بھیڑ میں لمحوں کی
جگ مگ سے ستاروں کی جس طرح قمر گزرے تینتس برس پہلے
اک شام ہوئی ایسی
جس شام کے پہلو
جھرنوں کا ترنم تھا پھولوں کی سواری تھی کچھ ایسے لگا جیسے اس لطف کا صدقہ تھا
اس شام سے پہلے تک جو عمر گزاری تھی
وہ سامنے بیٹھا تھا اور اس کی گھنی پلکیں جس وقت مری جانب اٹھنے کو لرزتی تھیں
اک پل کے لیے جیسے موقوف سا ہو جاتا
اس دل کا دھڑکنا بھی
لمحوں کا گزرنا بھی
دریاؤں کا چلنا بھی
ٹوٹے ہوئے جملے میں ' اک رکتا ہوا لہجہ آواز کے جادو کا ہر انگ سمو جاتا
تینتس برس پہلے
باہوں کا یہی حلقہ
)ویران و تہی حلقہ(
اک چاند کا ہالہ تھا
زلفوں کے اندھیرے میں چہرے کا اجالا تھا
سانسوں کی تمازت میں
پھولوں کا بدن جیسے 
اک تھان سا ریشم کا جو کھلتا چلا جائے محجوب سے چہرے پر 
موتی وہ پسینے کے 
ہونٹوں سے بس جن کو کوئی چنتا چلا جائے! ساز دل مضطر کو
چوڑی کی کھنک جیسے مضراب کی صورت تھی چڑیوں کے چہکنے میں
پھولوں کے مہکنے میں
اک رنگ کا میلہ تھا ' اک خواب کی صورت تھی انگلی سے اگر انگلی
چھو جائے کبھی یوں
وہ لمس کی لذت سے سرشار سا ہو جانا 
ہلکی سی کسی رنجش چھوٹی سی جدائی سے نیندوں سے بگڑ جانا ' تکیوں کو بھگو جانا ! اس وقت یہ لگتا تھا
دھرتی کے خزانوں میں
امبر کے تلے جو کچھ ہے اپنا ہے
اس وقت جو آنکھیں ہیں !
اس وقت جو سپنا ہے !
تا صبح ابد اب تو ان کا ہی زمنہ ہے
سنسار کا ہر کونا چاہت کا ٹھکانہ ہے ہرنقش وفا جیسے رنگوں کی کہانی ہے
خوشبو کا فسانہ ہے !
اک وصل کے رستے پر ہر خواب روانہ ہے!
اس خواب کو دیکھے اب تینتس برس گزرے
)اس زہر کو پیتے اب اک عمر ہوئی جاناں (
اس دہر کی وسعت میں تم جانے کہاں ہو گے ! انسان زمانے کی منہ زور ہواؤں میں
اس طرح بھٹکتے ہیں
آندھیمیں اڑیں جیسے بے سمت سفر پتے
اس وقت کی وحشت میں تم جانے کہاں ہو گے! تینتس برس پہلے
اس ہجر کے دریا کے اک ریت کنارے پر
اک پل کے لیے ہم تم کچھ دیر رکے ' لیکن
اب تک نہ کھلا مجھ پر
کس وقت چھوا ہم کو اس موج کے ہاتھوں نے
جس موج کے جادو نے مدہوش رکھا مجھ کو
تم پار گئے جاناں !
کیا کھیل تھا وہ جس میں ' ہم دونوں نہیں کھیلے اور ہار گئے جاناں 
اور
ہار گئے جاناں





امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...