ان کھیلی بازی کی ہار
تینتس برس پہلے
ایسی ہی کسی رت میں
دو خواب سی آنکھوں نے اک بات کہی مجھ سے اس بات کے مطلب کے
اڑتے ہوئے رنگوں کا مفہوم سمجھنے کو
کیا شام وسحر گزرے
اس رمز کی رم جھم میں
میں روح تلک بھیگا
سر سبز ہوا ایسا
موسم مری گلیوں میں خوشبو کی طرح پھیلے شاداب نظر گزرے
وہ بات رہی روشن بھیڑ میں لمحوں کی
جگ مگ سے ستاروں کی جس طرح قمر گزرے تینتس برس پہلے
اک شام ہوئی ایسی
جس شام کے پہلو
جھرنوں کا ترنم تھا پھولوں کی سواری تھی کچھ ایسے لگا جیسے اس لطف کا صدقہ تھا
اس شام سے پہلے تک جو عمر گزاری تھی
وہ سامنے بیٹھا تھا اور اس کی گھنی پلکیں جس وقت مری جانب اٹھنے کو لرزتی تھیں
اک پل کے لیے جیسے موقوف سا ہو جاتا
اس دل کا دھڑکنا بھی
لمحوں کا گزرنا بھی
دریاؤں کا چلنا بھی
ٹوٹے ہوئے جملے میں ' اک رکتا ہوا لہجہ آواز کے جادو کا ہر انگ سمو جاتا
تینتس برس پہلے
باہوں کا یہی حلقہ
)ویران و تہی حلقہ(
اک چاند کا ہالہ تھا
زلفوں کے اندھیرے میں چہرے کا اجالا تھا
سانسوں کی تمازت میں
پھولوں کا بدن جیسے
اک تھان سا ریشم کا جو کھلتا چلا جائے محجوب سے چہرے پر
موتی وہ پسینے کے
ہونٹوں سے بس جن کو کوئی چنتا چلا جائے! ساز دل مضطر کو
چوڑی کی کھنک جیسے مضراب کی صورت تھی چڑیوں کے چہکنے میں
پھولوں کے مہکنے میں
اک رنگ کا میلہ تھا ' اک خواب کی صورت تھی انگلی سے اگر انگلی
چھو جائے کبھی یوں
وہ لمس کی لذت سے سرشار سا ہو جانا
ہلکی سی کسی رنجش چھوٹی سی جدائی سے نیندوں سے بگڑ جانا ' تکیوں کو بھگو جانا ! اس وقت یہ لگتا تھا
دھرتی کے خزانوں میں
امبر کے تلے جو کچھ ہے اپنا ہے
اس وقت جو آنکھیں ہیں !
اس وقت جو سپنا ہے !
تا صبح ابد اب تو ان کا ہی زمنہ ہے
سنسار کا ہر کونا چاہت کا ٹھکانہ ہے ہرنقش وفا جیسے رنگوں کی کہانی ہے
خوشبو کا فسانہ ہے !
اک وصل کے رستے پر ہر خواب روانہ ہے!
اس خواب کو دیکھے اب تینتس برس گزرے
)اس زہر کو پیتے اب اک عمر ہوئی جاناں (
اس دہر کی وسعت میں تم جانے کہاں ہو گے ! انسان زمانے کی منہ زور ہواؤں میں
اس طرح بھٹکتے ہیں
آندھیمیں اڑیں جیسے بے سمت سفر پتے
اس وقت کی وحشت میں تم جانے کہاں ہو گے! تینتس برس پہلے
اس ہجر کے دریا کے اک ریت کنارے پر
اک پل کے لیے ہم تم کچھ دیر رکے ' لیکن
اب تک نہ کھلا مجھ پر
کس وقت چھوا ہم کو اس موج کے ہاتھوں نے
جس موج کے جادو نے مدہوش رکھا مجھ کو
تم پار گئے جاناں !
کیا کھیل تھا وہ جس میں ' ہم دونوں نہیں کھیلے اور ہار گئے جاناں
اور
ہار گئے جاناں
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment