"میں کچھ بھی نہیں"
اگر میں ڈاکیہ ہوتا
ہوا کے ہاتھ سے لِکھے
پُھولوں کے خط لے کر
تمہارے گھر پہنچ جاتا
جولاہا، میں اگر ہوتا
تو کھڈی پر تمہارے سانس سے
چادر بنا لیتا
اگر میں باغباں ہوتا
گزرتے بادلوں کے ہاتھ سے
چھاگل پکڑ کر
سُوکھتے پودوں کے پیروں میں اُلٹ دیتا
سپاہی میں اگر ہوتا
تو بچوں کا تبسّم جمع کر کے
دُشمنوں کی فوج کو مغلوُب کر دیتا
اگر میں مِستری ہوتا
تو سچے پیار کی بُنیاد پر
روشن خیالی کا جہاں تعمیر کر دیتا
اگر میں ماسٹر ہوتا
تو کالی رات کے تختِ سِیہ کو
میں تمہارا نام لکھ لکھ کر
سفیدی میں بدل دیتا!
شاھنواز زیدی
No comments:
Post a Comment