وہ حروف تازہ گلاب سے
جو مہک رہے ہیں یہاں وہاں
ترے پیار میں دلِ زار میں
تجھے بھول جانے کا شوق ہے
وہ محبتیں وہ عنایتیں
جو چراغ بن کر عیاں رہیں
وہ جو حرف حرف رواں رہیں
وہ جو لفظ لفظ جواں رہیں
تجھے بھول جانے کا شوق ہے
تجھے کیا خبر کہ گلی گلی
یا نگر نگر میں پھرا کوئی
تجھے من میں اپنے اتار کے
دلِ غمزدہ کو نکھار کے
تجھے بھول جانے کا شوق ہے
تجھے بھول جانا روا ہے جو
تو نظر مجھے وہ عطا کرو
جو کہ خواب دیکھے ترے سوا
جسے انس ہو کسی اور سے
جو بھلا سکے ترے پیار کو
اگر ہو سکے تو مرے صنم
مری سوچ ذہن سے نوچ لو
وہ جو اک کتاب ہے عشق کی
وہ جو اک نصاب ہے عاشقی
تجھے کیا خبر مرے ہمسفر
دلِ معتبر میں سما گیا
مجھے اپنا آپ بھلا گیا
مرے روبرو تو ہے تُو ہی تُو
تُو مرے لبوں کی ہے گفتگو
تُو ہی آرزو تُو ہی جستجو
تجھے بھول جانا روا ہے جو
مری سوچ ذہن سے نوچ لو
مری جان دل سے جدا کرو
مری چاہتوں کو رہا کرو
No comments:
Post a Comment