جہاں تمثیل تم میں ہو گیا ہے
یہ کیا ترسیل تم میں ہو گیا ہے
-
کھلا جو خواب میں کل شب گلستاں
وہی تبدیل تم میں ہو گیا ہے
-
سر آئینہ ہوتا تھا مرا عکس
کہیں تبدیل تم میں ہو گیا ہے
-
تسلسل سے سفر میرے لہو کا
ہزاروں میل تم میں ہو گیا ہے
-
ذرا اپنے بدن کو چھو کے دیکھو
کوئی تحلیل تم میں ہو گیا ہے
No comments:
Post a Comment