جگہ نہیں اود ڈائری میں
یہ ایش ٹرے پوری بھر گئی ہے
بھری ہوئی ہے
جلے بجھے ادھ کہے خیالوں کی راکھ و ُبو سے
خہال جو پوری طرح سے جلے نہیں تھے
مسل دیا یا دبا دیا تھا
بجھے نہیں وہ
کچھ ان کے ُٹرے پڑے ہوئے ہیں
بس ایک دو کش ہی لے کے
کچھ مصرے رہ گئے تھے
کچھ ایسی نظمیں جو توڑ کر پھینک دی تھی اس میں
دھواں نہ نکلے
کچھ ایسے اشعار
جو میرے برینڈ کے نہیں تھے
وہ ایک ہی کش میں کھانس کر
ایش ٹرے میں ِگھس کے بجھا دیے تھے
اس ایش ٹرے میں
بلیڈ سے کاٹی رات کی نبض سے ٹپکتے سیاہ قطرے بجھے ہوئے ہیں
چاند کی تراشیں
جو رات بھر ِچھیل ِچھیل کر پھینکتا رہا ہوں
گھڑی ہوئی پنسلوں کے چھلکے
خیال کی شدتوں سے جو ٹوٹتی رہی ہیں
اس ایش ٹرے میں
ہیں تیلیاں ہیں کچھ کٹے ہوۓ نام اور نمبروں کی
جلائیں تھی جن سے چند نظمیں
دھواں ابھی تک دیاسلائ سے جھڑ رہا ہے
الٹ پلٹ کے تمام صفحوں میں جھانکتا ہوں
کہیں کوئی ٹُرا نظم کا بچ گیا ہو تو
کش لگا لوں پھر سے
طلب لگی ہے
یہ ایش ٹرے پوری بھر گئی ہے!
(گلزار)
No comments:
Post a Comment