مجھے تم یاد آتے ہو!
بہت زیادہ نہیں لیکن!
خوشی میں اور غم میں
بارشوں میں بھیگتے اور سردیوں کی دھوپ میں بیٹھے
پرانی ڈائیری کے حاشیوں میں تمہارے کھلکھلاہٹ سے بھرے جملوں کو پڑھ کر مسکراتے
اور تمہارے کارڈز کو ہر بار اک نئی ترتیب سے رکھتے
جنم دن پر
ہر اک تہوار پر
سچ میں ۔۔۔
مجھے تم یاد آتے ہو
بہت زیادہ نہیں لیکن
مری ہر سوچ میں دھڑکن میں
سانسوں کے تسلسل میں
مجھے بھولے ہوئے ساتھی
مجھے تم یاد آتے ہو
(مری تکمیل تم سے ہے) سے ایک نظم
-
عاطف سعید
No comments:
Post a Comment