Wednesday, 18 November 2015

Kahaan Jana tha Mujh Ko

کہاں جانا تھا مجھ کو
کس نگر کی خاک بالوں میں سجانا تھی
مجھے کن ٹہنیوں سے دھوپ چُننا تھی
کہاں خیمہ لگانا تھا
مری مٹی راہِ سیارگاں کی ہمقدم نکلی
مری پلکوں پہ تارے جھلملاتے ہیں
بدن میں آگ لگتی ہے
مگر پاؤں میں خوں آ شام رستے لڑکھڑاتے ہیں
یہ کیا شیرازہ بندی ہے
یہ میری بےپری کس کُنج سے ہو کر بہم نکلی
نظر میں دن نکلتا ہے
پروں میں شام ڈھلتی ہے
مگر میں تو لہو کی منجمد سل ہوں
بدن کی کشتِ ویراں میں
یہ کس کی اُنگلیوں نے عمر بھر مجھ کو کریدا ہے
کہاں شریان میں چلتا ہوا یہ قافلہ ٹھہرا
کہ میں اس ہاتھ کی ریکھاؤں میں رنگِ حنا ٹھہرا
کہاں جانا تھا مجھ کو
کس جگہ خیمہ لگانا تھا

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...