وہ خط کے پرزے اُڑا رہا تھا
ہواؤں کا رُخ دِکھا رہا تھا
-
بتاؤں کیسے وہ بہتا دریا
جب آ رہا تھا تو جا رہا تھا
-
کہیں مرا ہی خیال ہو گا
جو آنکھ سے گرتا جا رہا تھا
-
کچھ اور بھی ہو گیا نمایاں
مَیں اپنا لکھا مٹا رہا تھا
-
وہ جسم جیسے چراغ کی لَو
مگر دھُواں دِل پہ چھا رہا تھا
-
منڈیر سے جھک کے چاند کل بھی
پڑوسیوں کو جگا رہا تھا
-
اسی کا ایماں بدل گیا ہے
کبھی جو میرا خُدا رہا تھا
-
وہ ایک دن ایک اجنبی کو
مری کہانی سنا رہا تھا
-
وہ عمر کم کر رہا تھا میری
مَیں سال اپنا بڑھا رہا تھا
-
خدا کی شاید رضا ہو اس میں
تمہارا جو فیصلہ رہا تھا
No comments:
Post a Comment