جی دیکھا ہے مر دیکھا ہے
ہم نے سب کچھ کر دیکھا ہے
-
برگِ آوارہ کی صورت
رنگِ خشک و تر دیکھا ہے
-
ٹھنڈی آہیں بھرنے والو
ٹھنڈی آہیں بھر دیکھا ہے
-
تیری زلفوں کا افسانہ
رات کے ہونٹوں پر دیکھا ہے
-
اپنے دیوانوں کا عالم
تم نے کب آ کر دیکھا ہے
-
انجُم کی خاموش فضاء میں
میں نے تمہیں اکثر دیکھا ہے
-
ہم نے اس بستی میں جالب
جھوٹ کا اونچا سر دیکھا ہے
-
حبیب جالب
No comments:
Post a Comment