جس کی جھنکار میں دل کا آرام تھا وہ تیرا نام تھا
میرے ہونٹوں پہ رقصاں جو اک نام تھا وہ تیرا نام تھا
-
مجھ سے منسوب تھیں داستانیں کئی ایک سے ایک نئی
خوبصورت مگر جو اک الزام تھا وہ تیرا نام تھا
-
غمِ نے تاریکیوں میں اُچھالا مجھے مار ڈالا مجھے
اک نئی چاندنی کا جو پیغام تھا وہ تیرا نام تھا
-
تیرے ہی دم سے ہے یہ قتیل آج بھی شاعری کاولی
اس کی غزلوں میں کل بھی جو الہام تھا وہ تیرا نام تھا
-
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment