پھیلے گی بہر طور شفق نیلی تہوں میں
قطرے کا لہو بھی ہے سمندر کی رگوں میں
-
مقتل کی زمیں صاف تھی آئینہ کی صورت
عکسِ رخِ قاتل تھا ہر اک قطرہءِ خوں میں
-
مت پوچھ مری چشمِ تحیر سے کہ مجھ کو
کیا لوگ نظر آئے ہیں دشمن کی صفوں میں
-
کچھ وہ بھی کم آمیز تھا، تنہا تھا، حسیں تھا
کچھ میں بھی مخل ہو نہ سکا اس کے سکوں میں
-
ہر صبح کا سورج تھا میرے سائے کا دشمن
ہر شب نے چھپایا ہے مجھے اپنے پروں میں
-
اب اہل خرد بھی ہیں لہو سنگِ جنوں سے
کیا رسم چلی شہر کے آشفتہ سروں میں
-
جو سجدہ گہِ ظلمت ِ دوراں رہے محسن
اتری نہ کوئی اندھی کرن ایسے گھروں میں
No comments:
Post a Comment