Saturday, 16 January 2016

Abhi To saal guzara tha

بہت گم صم سے بیٹھے تھے
کسی تصویر جیسے تھے
اگر میں سچ کہوں جاناں
مری تعبیر جیسے تھے
جہاں پر تم نے کاغذ کی بہت چھوٹی سی ناؤ کو__
بڑی چاہت سے، ہمت سے
سمندر میں اتارا تھا
بہت دلکش نظارہ تھا
تمہارے حوصلے پہ کسقدر حیران یہ لہریں
تمہیں حیرت سے تکتیں تھیں
بپھرتی تھیں ، مچلتی تھیں
مگر تم ان سے بےپرواہ
بس اپنی سوچ میں گم تھے
ہماری آنکھ میں تم تھے
تمہیں کچھ یاد ہے
ساحل پے ہم نے گیت
گایا تھا__
تمہیں دل میں بسایا تھا
جہاں ہم تم ملے تھے
اور پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں
کئی صدیاں گزاری تھیں
مری سانسیں تمہاری تھیں
ابھی تو سال گزرا ہے
کہ جب تم میرے شانوں پر اچانک ہاتھ رکھ کر
چپکے چپکے مجھ سے کہتی تھیں
محبت تو عبادت ہے ، محبت تو سعادت ہے
محبت فیض کا چشمہ جسے دن رات بہنا ہے
ہمیں اک ساتھ رہنا ہے، یہ دکھ سکھ ساتھ سہنا ہے__
ابھی کچھ دیر ہی پہلے
تمہاری آنکھ کے جھل مل ستارے
ہم سے کہتے تھے
ہمارا نام لیتے تھے ، ہمیں پیغام دیتے تھے
تمہارا ساتھ نہ چھوٹے ، ہمارا خواب نہ ٹوٹے
مگر یہ سال کیسا ہے
کسی نے بھی نہیں پوچھا
ہمارا حال کیسا ہے
وہی ساحل ، وہی موسم ، وہی رستے، وہی قصّے__
وہی سب کچھ تو ہے جاناں
مگر اب تم نہیں میرے
بس اک احساس رہتا ہے
گیا وقت لمحے لمحے آنسوؤں کے ساتھ بہتا ہے
ہمیں اک بات کہتا ہے
تمہارا ساتھ کیوں چھوٹا ؟
ہمارا خواب کیوں ٹوٹا ؟
ابھی تو سال گزرا تھا ...!!

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...