Saturday, 16 January 2016

Ajnabi aao

اجنبی آؤ
اجنبی آؤ
دیکھو، امنگوں کی نوخیز کلیاں
جو مرجھا رہی ہیں
تمہارے لیے وقت ۔۔۔ چنچل پرندہ
مرے سانس پتھر تلے دب چکے ہیں
مری عمر کچھ کٹ چکی ہے
جو باقی ہے ۔۔۔ اک کرب میں کٹ رہی ہے
اگر اجنبی تم نہ آؤ
تو پیغام بھیجو
اگر کوئی چنچل پرندہ ملے ۔۔۔ وقت کا
اس کی گردن میں باندھو کوئی سبز کاغذ
کوئی سبز کاغذ کہ جس پر لکھو ۔۔۔ اپنے ہاتھوں
انوکھی، پر اسرار، سب رنگ تحریر
پھر وہ پرندہ مری سمت بھیجو
تو پھر اجنبی، وہ پرندہ
(اگر ہو سکے تو
مرے سانس پتھر تلے سے نکالے
مرا کرب چکھے
وہ کاغذ
تمہاری پراسرار، سب رنگ تحریر والا
محبت کا تعویذ کر کے
مری سُونی گردن میں ڈالے
-
ثمینہ راجہ

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...