Saturday, 16 January 2016

Kaho Na Yaad Karty Ho

کہو نا یاد کرتے ہو
انا کے دیوتا 
اچھا چلو مرضی تمہاری پر
میں اتنا جانتا تو ہوں
کہ جب بھی شام ڈھلتی ہے 
تو لمبی رات کی کجلائی آنکھوں میں
ستارے جھلملاتے ہیں
تمہیں میں اس گھڑی پھر چاند کو تکتے ہوئے
شدت سے اتنا یاد آتا ہوں کہ جتنی شدتوں سے
تم خموشی کی ردا کو اوڑھ کر یہ کہہ نہیں پاتے
کہ ہاں! تم یاد آتے ہو!
چلو مانا انائیں اہم ہوتی ہیں 
مگر ان سے کہیں زیادہ محبت اہم ہوتی ہے
چلو مانا تمہیں عادت نہیں اظہار کی،
اقرار کی، 
اور تم بھی محسن نقوی کی وہ نظم تھی نا جو 
"چلو چھوڑو" کی بس ان چند سطروں سے متاثر ہو 
کہ جو کچھ اس طرح سے تھیں
"چلو چھوڑو! محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا"
مگر اِس نظم میں پنہاں 
جو ہے اک بے بسی کی اوٹ میں ٹوٹا، 
تھکا ہارا بڑا ہی مضطرب اور طنزیہ لہجہ
اسے تم نے کبھی محسوس کرنے کی سعی کی
نا مرے جذباب کو سمجھا
مجھے معلوم ہے تم کو محبت ہے مگر تم کہہ نہیں سکتے
انا کے دیوتا! 
میں جانتا ہوں ان کہی باتیں
مگر چھوٹی سی یہ خواہش 
مرے سینے کو تڑپائے ہوئے رکھتی ہے کہ تم بھی
کبھی اپنی انا کا بت گراؤ
وہ سبھی باتیں ذرا شیریں سے لہجے میں سناؤ
وہ سبھی باتیں جنھیں تم کہہ نہیں پائے
جنھیں تم کہہ نہیں سکتے
مجھے معلوم ہے کہ میں تمہیں بے چینیوں کی شدتوں میں 
حد سے زیادہ یاد آتا ہوں
مگر تم لب ہلاؤ تو
مری ان رتجگوں کی مٹھیوں میں قید آنکھوں میں 
تم اپنی ڈال کر آنکھیں ذرا اک بار دیکھو تو!!
کہو کس واسطے جذبوں کا اپنے خون کرتے ہو
بھلا کیوں روندتے ہو پاؤں میں ایسے گُلِ خوابِ محبت کو
تمہیں ملتا ہی کیا ہے درد سے مجھ کو سدا منسوب رکھنے میں
انا کو اوڑھ کر تم کس لیے یہ خواہشیں اور حسرتیں برباد کرتے ہو
کہو نا یاد کرتے ہو
-
زین شکیل

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...