"مجھے پاس رکھ لے سنبھال کر"
-
مجھے چھوٹے چھوٹے حروف میں
کہیں لکھ کے پاس سنبھال لے
مِرا نام تجھ سے جڑا رہے
مجھے لوگ سارے ترے حوالے سے یاد کرتے رہیں سدا
کوئی ایسا اسم بتا مجھے
کہ جو میری زیست کی تیرگی کو نگل سکے
کبھی دور جانے کا سوچ مت
کہ میں بس رہا ہوں ترے وجود میں سر تا پا
ترا دیکھنا مرے دیکھنے کا ہے راستہ
ترے بولنے سے مرے حروف مہک رہے ہیں
تو ایسے میں
کبھی دور جانے کا سوچ مت
کہیں یہ نہ ہو
تجھے جو بھی دیکھے وہ چیخ اٹھے
وہ تڑپ کے بولے
اے صندلیں!
ارے صندلیں!
تجھے کیا ہوا؟
ترے رنگ روپ میں داغ کس طرح آگئے؟
ارے صندلیں!
تری آنکھ ایسی کبھی نہ تھی
کہ جو اُجڑی بستی بنی ہوئی ہے ابھی ابھی
ترے بال
اف ترے بال
ان کو یہ کیا ہوا
ترے نیم جان سے شانوں پر یہ اُجڑ اُجڑ کے بکھر رہے ہیں
بتا ناں کیوں؟
ترے لال گال بھی زردیوں میں بدل گئے
ترے حرف
ہائے یہ حرف کب ہیں یہ بین ہیں
تری ذات شدتِ غم کے نوحے سنا رہی ہے
بتا ناں کیوں؟
مِری شاہزادی!
مِری ریاضتِ زندگی!
مِری صندلیں!
مِری بھولی بھالی سی،
بے قرار سی صندلیں!
تجھے کہہ رہا ہوں سنبھال لے
مجھے چھوٹے چھوٹے حروف میں
کہیں لکھ کے پاس سنبھال لے
مِری ذات، بات، یہ میرا نام و نشان تجھ سے جڑا رہے
کبھی دور جانے کا سوچ مت!!
-
زین شکیل
(نظم: صندل)
No comments:
Post a Comment