"ایک اور دھماکہ ہونے تک"
-
بس ایک دھماکا ہوتا ہے
اور جیتے جاگتے انسانوں کے جسم ’’گتاوا‘‘ بن جاتے ہیں
ایک ہی پل میں
اپنے اپنے خوابوں کے انبار سے بوجھل کتنی آنکھیں
ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں
ان کے دلوں میں آنے والی ساری صبحیں کٹ جاتی ہیں
ساری شامیں کھو جاتی ہیں
لاشیں ڈھونڈنے والوں کی چیخوں کو سن کر یوں لگتا ہے
انساں کی تقدیر- قیامت!
جس کو اک دن آنا تھا وہ آپہنچی ہے
مرنے والے مر جاتے ہیں
جیون کے ’’اسٹیج‘‘ پر ان کا ’’رول‘‘ مکمل ہوجاتا ہے
لیکن ان کی ’’ایگزٹ‘‘ پر یہ منظر ختم نہیں ہوتا
اک اور ڈرامہ چلتا ہے
اخباروں کے لوگ پھڑکتی ’’لیڈیں‘‘ گھڑنے لگ جاتے ہیں
(جن کے دم سے ان کی روزی چلتی ہے)
اور ٹی وی ٹیمیں کیمرے لے کر آجاتی ہیں
تاکہ ’’وژیول‘‘ سج جائے اور اعلیٰ افسر
اپنی اپنی ’’سیٹ‘‘ سے اٹھ کر ’’رش‘‘ کرتے ہیں
ایسا ناں ہو!
حاکم اعلیٰ، یا کوئی اس سے ملتا جلتا
ان سے پہلے آپہنچے
پھر سب مل کر اس ’’ہونی‘‘ کے پس منظر پر
اپنے اپنے شک کی وضاحت کرتے ہیں اور
حاکم اعلیٰ، یا کوئی اس سے ملتا جلتا
دہشت گردی کی بھر پور مذمت کرکے
مرنے والوں کی بیواؤں اور بچوں کو
سرکاری امداد کا مژدہ دیتا ہے
اور چلتے چلتے ہاسپٹل میں
زخمی ہونے والوں سے کچھ باتیں کرکے جاتا ہے
حزب مخالف کے لیڈر بھی
اپنے فرمودات کے اندر
’’کرسی والوں‘‘ کی ناکامی، نااہلی اور کم کوشی کا
خوب ہی چرچا کرتے ہیں
گرجا، برسا کرتے ہیں
اگلے دن اور آنے والے چند دنوں تک
یہ سب باتیں خوب اُچھالی جاتی ہیں
پھر دھیرے دھیرے
ان کے بدن پر گرد سی جمنے لگتی ہے
اور سب کچھ دھندلا ہوجاتا ہے
خاموشی سے اک سمجھوتہ ہو جاتا ہے
سب کچھ بھول کے سونے تک
اک اور دھماکا ہونے تک
-
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment