کینوس پر پھیلی اداسی
عجب یہ سوگ واری ہے
نہ شامیں سرمئی رنگت،نہ صبحیں نور بنتی ہیں
نہ راتیں نیند کے مشکیزے لاتی ہیں
(ہماری آنکھ صحرا،خواب پیاسے ہیں)
نہ نٹ کھٹ بارشوں کی رُت ہی باقی ہے
نہ ہاتھوں کے کٹوروں میں دعا کے حرف باقی ہیں
تھکن اعصاب پر طاری،
زباں لکنت زدہ،باتیں قنوطی،
پھول پژمُردہ،تعلّق،دوستی،رشتے،
محبّت،آشتی،قصّے
جو قصّہ گو سناتے ہیں
اداسی خون خلیوں میں مسلسل رقص کرتی ہے
ہماری نظم کی ہر سطر میں تنہائی روتی ہے
No comments:
Post a Comment