Sunday, April 10, 2016

Ajab Ye Soog waari hai

کینوس پر پھیلی اداسی

عجب یہ سوگ واری ہے
نہ شامیں سرمئی رنگت،نہ صبحیں نور بنتی ہیں
نہ راتیں نیند کے مشکیزے لاتی ہیں
(ہماری آنکھ صحرا،خواب پیاسے ہیں)
نہ نٹ کھٹ بارشوں کی رُت ہی باقی ہے
نہ ہاتھوں کے کٹوروں میں دعا کے حرف باقی ہیں
تھکن اعصاب پر طاری،
زباں لکنت زدہ،باتیں قنوطی،
پھول پژمُردہ،تعلّق،دوستی،رشتے،
محبّت،آشتی،قصّے
جو قصّہ گو سناتے ہیں
اداسی خون خلیوں میں مسلسل رقص کرتی ہے
ہماری نظم کی ہر سطر میں تنہائی روتی ہے

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...