Sunday, April 10, 2016

Ghar me Almari nahi

بین
-
گھر میں الماری نہیں 
جس میں تری یاد
ترے خط ، تری تصویریں 
چھپا کر رکھوں
جتنے صندوق ہیں
فرسودہ خیالوں سے بھرے رہتے ہیں
جس طرح میلے کچیلے کپڑے
گھر میں بس ایک ہی تالہ ہے کہ جو
اپنی آزادی کے کنڈے میں پڑا رہتا ہے
اور کھوئی ہوئی چابی
کہ کسی طور نہیں ملنا جسے
دل کسی کانچ کے ٹوٹے ہوئے برتن میں بھرا رکھا ہے
جانے کس وقت چلک جائے کسی رخنے سے
ہم نے کچھ روز کتابوں سے اٹے کونے میں
تیری آواز چھپا کر رکھی
جانے کس بگڑے ہوئے کان مین رس جا ٹپکا
لے گیا چور کوئی چوری چھپے آخری سرمایا بھی
میں نے سوچا ہے بہت غصے میں
جو کتابیں تری آواز بھی محفوظ نہیں رکھ سکتیں
جو بچا سکتی نہیں چور سماعت سے تجھے
چھین لے جائے کوئی یہ بھی بہانہ مجھ سے
-
فرحت عباس شاہ
(موت زدہ)

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...