Friday, July 15, 2016

Rung Bat'ti Thi Woh


رنگ بانٹتی تھی وہ
ایسی روشنی تھی وہ

سرمئی گھٹاؤں سی
کیسے چھا گئی تھی وہ

مسئلہ یہی تھا بس
تم پہ مر مٹی تھی وہ

سیڑھیوں پہ بیٹھی تھی
راہ دیکھتی تھی وہ

خواب بچ گیا تھا پر 
ٹوٹ سی گئی تھی وہ

اس قدر سفید ہونٹ
جیسے مرچکی تھی وہ

آئنہ پٹخ دیا
خود سے ڈر گئی تھی وہ

دور تک سنائی دی
چیخ آخری تھی وہ

فریحہ نقوی

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...