رنگ بانٹتی تھی وہ
ایسی روشنی تھی وہ
سرمئی گھٹاؤں سی
کیسے چھا گئی تھی وہ
مسئلہ یہی تھا بس
تم پہ مر مٹی تھی وہ
سیڑھیوں پہ بیٹھی تھی
راہ دیکھتی تھی وہ
خواب بچ گیا تھا پر
ٹوٹ سی گئی تھی وہ
اس قدر سفید ہونٹ
جیسے مرچکی تھی وہ
آئنہ پٹخ دیا
خود سے ڈر گئی تھی وہ
دور تک سنائی دی
چیخ آخری تھی وہ
فریحہ نقوی
No comments:
Post a Comment