اگر میں تمہارا انتطار کر سکتا
تو زمین پر روزِ شمار
کبھی نہ آتا!
اگر میں تمہاری آنکھوں کے جنگل میں
درخت جیسا اُگ سکتا
تو میری جڑیں
کائنات کے دل تک پھیل جاتیں
اور خدا میری شاخوں پر
بادل بن کر برستا
اور پھول بن کر کِھلتا!
اگر میں تمہاری راتوں کی نیندیں اوڑھ سکتا
تو کسی پارینہ خواب کی بارگاہ میں
دیا بتی کرتا
تمہاری مقدس تاریکیوں سے
روشنی کی بشارت لیتا
اور دنیا کو
اپنی آنکھوں سے طلوع ہوتے ہوئے دیکھتا!
اگر میں تمہارے ساتھ چل سکتا
تو راستہ کبھی ختم نہ ہوتا
یہاں تک کہ
وقت اپنے پھٹے پرانے جاگرز پہنے
کسی زنگ آلودہ فولادی بینچ پر
تھک کر بیٹھ جاتا!
اگر میں تمہارا ہاتھ تھام سکتا
تو سرمئی بادلوں کی سیڑھیوں پر پاؤں رکھتا
افق تا افق
قوسِ قزح کے پُل سے گزرتا
اور بچوں کی طرح
عمروں کے بوڑھے ساحلوں پر
کاسنی شاموں کے ڈھیر لگا دیتا
آسمان فرشتوں کے الوہی پروں
اور گلابی پرندوں کی اڑانوں سے بھر جاتا!
اگر میں تمہارا لفظ بن سکتا
تو متن سے حاشیے تک
معانی جیسا پھیل جاتا
نظم، اگر میں لکھ سکتا
تو تمہارے لیے ایک نظم ضرور لکھتا!!
No comments:
Post a Comment