میں وہ شجر تھا
کہ میرے سائے میں بیٹھنے اور شاخوں پہ جُھولنے کی ھزاروں جسموں کو آرزو تھی
زمیں کی آنکھیں درازیء عمر کی دُعاؤں میں رو رھی تھیں
اور سُورج کے ھاتھ تھکتے نہیں تھے مجھ کو سنوارنے میں
کہ میں اِک آواز کا سفر تھا
عجب شجر تھا
کہ اُس مسافر کا منتظر تھا
جو میرے سائے میں آ کے بیٹھے تو پھر نہ اُٹھے
جو میری شاخوں پہ آ کے جُھولے تو سارے موسم یہیں گزارے
مگر وہ پاگل ھَوا کا جھونکا، مگر وہ پاگل ھَوا کا جھونکا
عجب مسافر تھا رہ گزر کا
جو چھوڑ آیا تھا کتنے سائے
جو توڑ آیا تھا کتنی شاخیں
مگر لگا یُوں کہ جیسے اب وہ شکستہ تر ھے
وہ میرے خوابوں کا ھمسفر ھے
سو میں نے سائے بچھا دیے تھے
تمام جُھولے ہلا دیے تھے
مگر وہ پاگل ھَوا کا جھونکا، مگر وہ پاگل ھَوا کا جھونکا
عجب مسافر تھا رہ گزر کا
کہ لمحے بھر میں گزر چکا تھا
میں بے نموُ اور بے ثمر تھا
مگر میں آواز کا سفر تھا
سو میری آواز کا اجر تھا
عجب شجر تھا
عجب شجر ھُوں
کہ آنے والے سے کہہ رھا ھُوں
اے میرے دل میں اُترنے والے
اے مجھ کو شاداب کرنے والے
تجھے مِری روشنی مبارک!
تجھے مِری زندگی مبارک!!
No comments:
Post a Comment