Sunday 1 October 2017

Nam Likhti Hai Mujhay


نظم لکھتی ہے تجھے
میں نہیں
یہ نظم لکھتی ہے تجھے
اپنی سطروں میں ترے ہاتھوں کی شمعوں کی نزاکت
صبحِ حرفِ خواب کے رنگوں سے لکھتی ہے
تری ان سبز آنکھوں کے انوکھے زاویوں کو ،جھوٹ سچ کو،جھوٹ سچ اور مصلحت کو اور حسنِ مصلحت کے
راز لکھتی ہے
جانِ جاں یہ میرے لہجے میں
ترے سُرتال لکھتی ہے
مرے دن کی اُداسی ،راستہ تکنے کی عجلت
اورمری آنکھیں جو تیری چمپئی خوشبو کی گرہوں میں بندھی رہتی ہیں
ان کا حال لکھتی ہے
نظم میری ہے مگر دھڑکن کے وقفوں میں
ترے قدموں کی آہٹ اور ترے سب خال وخد
نقطوں،کشوں اور دائروں کے باب میں لکھتی ہے کاغذ کی سفیدی پر ترے ماتھے کی روشن صبحیں
شامیں درج کرتی ہے
کبھی ترے گھنے بالوں سے مضموں باندھتی ہے
اور کبھی تری سلگتی سانس سے مصرع بناتی ہے
کبھی تیرے لہو کی آنچ سے عنواں چراتی ہے
ترے چشم و لب و رُخ کے کنارے
تجھ سے ملنے کے کئی رَستے سجھاتی ہے
کچھ اس انداز سے تجھ کو
مری خاطر
مری یہ نظم لکھتی ہے

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...