دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہےاُس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھر جاتی ہےجیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہےبول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہےکون اُبھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکےاس کو ہر طور سوئے دشتِ سحر جانا ہےمیں کِھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھےوہ تو خوشبو ہے، اسے اگلے نگر جانا ہےوہ ترے حُسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دلہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے(امجد اسلام امجد)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
Shaam K Pech O Kham
شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...
-
ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮐﺘﻨﺎ ﮔﮩﺮﺍ ﮨﻮ ﺳﺤﺮ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺋﻞ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﺳﻮﯾﺮﺍ ﮨﻮ ﮐﮯ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻣﺖ ﮨﻮﻧﺎ،ﺍﻣﯿﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﻤ...
-
تم ثروت کو پڑھتی ہو؟ کتنی اچھی لڑکی ہو میں جنت سے نکلا تھا اور تم مجھ سے نکلی ہو بات نہیں سنتی ہو، کیوں ؟ غزلیں بھی تو سنت...
-
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے ہم نے وہ زندگی گزاری ہے ""جون ایلیا" Jo guzari Na Ja saki Hum sy ...
No comments:
Post a Comment