وسعت ہے وہی، تنگئ افلاک وہی ہے
جو خاک پہ ظاہر ہے، پسِ خاک وہی ہے
-
اک عمر ہوئی موسمِ زنداں نہیں بدلا
روزن ہے وہی، مطلعء نم ناک وہی ہے
-
کیا چشمِ رفوگر سے شکایت ہو کہ اب تک
وحشت ہے وہی، سینہء صد چاک وہی ہے
-
ہر چند کہ حالات موافق نہیں پھر بھی
دل تیری طرف داری میں سفاک وہی ہے
-
اک ہاتھ کی جنبش میں درد بہت ہے، ورنہ
گردش وہی، کوزہ ہے وہی، چاک وہی ہے
-
جو کچھ ہے مرے پاس، وہ میرا نہیں شاید
جو میں نے گنوا دی مری املاک وہی ہے
-
زوروں پہ سلیم اب کے ہے نفرت کا بہاؤ
جو بچ کے نکل آئے گا، تیراک وہی ہے
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment