احساسِ برتری میں گرفتار ہو گئے
ہم سے مِلے تو لوگ بھی فنکار ہو گئے
کچھ اَن کہی میں بات محبت کی ہو گئیکچھ سَر کٹے بھی صاحبِ دستار ہو گئے
پاسِ وفا کا خوف دلوں سے اُتر گیالگتا ہے شہر مِصر کے بازار ہو گئے
اس نے جو عشق لازم و ملزوم کر دیالمحاتِ وصل اور بھی دُشوار ہو گئے
کل بزمِ بے خیال میں آیا تِرا خیالاِک شعر کہنا چاہا تو دو چار ہو گئے
حیران کُن ہیں عامی محبت کے حادثےگونگوں کی بھی زبان سے اقرار ہو گئے
(عمران عامی)
No comments:
Post a Comment