Monday, 7 December 2015

aik Purana Khawab

ایک پُرانا خواب"
فریحہ نقوی

بہت قدیم سا وہ گھر ،
بہت بہت قدیم سا۔۔۔۔ !
وہ پتھروں کا گھر کوئی،
اسی کے ایک تنگ سے کواڑ میں کھڑی ہوئی،
وہ کون تھی؟
وہ کون تھی جو خواب میں علیل تھی ؟؟؟
وہ جس کے زرد جسم کا تمہیں بہت خیال تھا !
رقیب تھی مری ؟
مگر بھلی بھلی لگی مجھے ۔۔۔ !!
تھی اس کے زرد رنگ پر گھنی اداسیوں کی رُت،
پگھل پگھل کے گر رہا تھا اس کی آستیں پہ دکھ ۔۔۔۔
مری تو روح خوف سے لرز گئی،
نگاہ چیخنے لگی ،
"یہ کون ہے، یہ کون ہے؟"
اسی گھڑی ،
تمہاری اک نگاہ نے جھکے جھکے یہ کہہ دیا،
کہ" یہ علیل ہے بہت،
اسے مرا ذرا سا دھیان چاہیئے ،
یہ جب بھی تندرست ہو گئی میں لوٹ آؤں گا " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے زرد رُو!
میں جانتی نہیں تجھے
تو کون تھی، نہیں پتا 
مگر تری حیات کی دعا مِری حیات ہے !!
تو تندرست ہو کے کب دکھائے گی

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...