یہ وقت کیا ہے یہ کیا ہے جو آخر مسلسل گزر رہا ہے؟
یہ جب نہ گزرا تھا تب کہاں تھا کہیں تو ہوگا ؟
گزر گیا ہے تو اب کہاں ہے کہیں تو ہو گا
کہاں سے آیا کد ھر گیا
یہ کب سے کب تک کا سلسلہ ہے یہ وقت کیا ہے؟
یہ واقعے، یہ حادثے ، تصادم ،
ہر ایک غم اور ہر ایک مسرت ،
ہر ایک اذیت ،ہر ایک لذت
ہر ایک تبسم ،ہر ایک آنسو،
ہر ایک نغمہ ، ہر ایک خو شبو،
وہ زخم کا درد ہو کہ لمس کا جا دو
خود اپنی آواز ہو یا ماحول کی صدائیں،
یہ ذہن میں بنتی بگڑتی ہوئی فضائیں
وہ فکر میں آئیں زلزلیں ہوں کہ دل کی ہلچل
تمام حساس سارے جذ بے
کہ جیسے پتے بہتے پانی کی سطح پر تیرتے ہیں
ابھی یہاں ہیں ابھی وہاں ہیں اور اب ہیں بوجھل
دکھائی دیتا نہیں ہے لیکن یہ کچھ تو ہے جوکہ بہہ رہا ہے؟
یہ کیسا دریا ہے کن پہاڑوں سے آ رہا ہے یہ کس سمندر کو جا رہا ہے؟
یہ وقت کیا ہے؟ کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ چلتی گاڑی سے پیڑ دیکھو
تو ایسا لگتا ہے دوسری سمت جا رہے ہیں
مگر حقیقت میں پیڑ اپنی جگہ کھڑے ہیں
توکیا یہ ممکن ہے ساری صدیاں قطار اندر قطار اپنی جگہ کھڑی ہوں یہ وقت ساقط ہو اور
ہم ہی گزر رہے ہوں اس ایک لمحے میں سارے لمحے ساری صدیاں چھپی ہوئی ہوں
نہ کوئی آئندہ نہ گزشتہ جوہوچکا جوہورہا ہے
جو ہونے والا ہے میں سوچتا ہوں
تو کیا ممکن ہے کہ صدیوں کے سفرمیں ہم ہیں گزرتے ہم ہیں
جسے سمجھتے ہیں ہم کہ گزرتا ہے وہ تھما ہوا ہے
گزرتا ہے کہ تھما ہوا ہے اکائی ہے کہ بٹا ہوا ہے،
منجمد کہ پگھل رہا ہے
کسے خبر ہے، کسے پتہ ہے یہ وقت کیا ہے
-
جاوید اختر
No comments:
Post a Comment