ہم دونوں
اک پھولوں والے جنگل میں
ننگے پاؤں
دن بھر گھومتے رہتے ہیں
باتیں کرتے
لڑتے جھگڑتے
شور مچاتے
پھول بھرے ان رستوں پر
دن بھر چلتے رہتے ہیں
ان دیکھے پھولوں کی خوشبو
ہم کہ کھینچی رہتی ہے
-
جس جانب بھی جائیں وہاں پر
رنگ برنگے لاکھوں پھول کھلے ہوتے ہیں
چلتے چلتے
کوئی ندیا جائے تو
پھول بھری اک شاخ پکڑ کر
وہ کہتی ہے
دیکھو اس میں
پھول ہی پھول بہے جاتے ہیں
سچ کہتی ہے
اتنے پھول
ہمیں ہاتھوں سے پھول ہٹا کر
پانی پینا پڑتا ہے
چلتے چلتے
کوئی جھرنا آجائے تو
آنکھیں ملتے
وہ کہتی ہے
دیکھو
جھرنا کتنا سندر ہے
بہتے گرتے پھول اسے
حیران کیے رکھتے ہیں
وہ کہتی ہے
دیکھو تو
پانی میں اتنے پھول کہاں سے آتے ہیں
کیا جھرنے پھول اگاتے ہیں
میں ہنس پڑتا ہوں
اس کی ایسی باتوں پر میں
اکثر ہنس پڑتا ہوں
پھول ہماری ساری باتیں سنتے ہیں
اس جنگل کے
پنچھی بھی ہیں پھولوں جیسے
ان کو دیکھ کے یوں لگتا ہے
جیسے پھول اڑے جاتے ہوں
جب جنگل میں
تیز ہوائیں چلتی ہیں
اتنے پھول بکھر جاتے ہیں
سارے رستے
ان پھولوں کے نیچے آکر
مر جاتے ہیں
چاند اور سورج
روپ بدلتے رہتے ہیں
ہم پھولوں پر چلتے رہتے ہیں
ٓآخر کھو جاتے ہیں
گم ہو جاتے ہیں
-
حسن عباسی
No comments:
Post a Comment