Friday, 15 July 2016

Fareeha Naqvi



لاہور پاکستان سے تعلق رکھنے والی خوبصورت و منفرد لب و لہجے کی شاعرہ ۔ لاہور شہر میں ہی تعلیم حاصل کی اور اکاونٹس میں ڈگری حاصل کی۔ انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاونٹنٹس آف پاکستان سے منسلک رہیں اور ایک ادارے میں بطور لیکچرار اپنے ملازمت کے فرائض انجام دیے۔ شاعری میں تیکھا اور بے باک انداز ہی ان کے کلام کو منفرد بناتا ہے اور ایسا لہجہ عموما کم شاعرات کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ ان کے کلام سے ایک نظم اور غزلوں سے چند اشعار احباب کی محبتوں کی ںذر


ہمارے کمرے میں پتیوں کی مہک نے
سگریٹ کے رقص کرتے دھوئیں سے مل کر ،
عجیب ماحول کر دیا ہے 
اور اس پہ اب یہ گھڑی کی ٹک ٹک نے،
دل اُداسی سے بھر دیا ہے
کسی زمانے میں ہم نے،
ناصر، فراز، محسن، جمال، ثروت کے شعر اپنی چہکتی دیوار پر لکھے تھے
اب اس میں سیلن کیوں آگئی ہے........ ؟
ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے ، اسی پہ کب سے، 
(وہ دائیں جانب، میں بائیں جانب.... )
نہ جانے کب سے دراز ہیں ہم ... !!!
میں اس سے شاید خفا نہیں ہوں ،
اُسے بھی کوئی گلہ نہیں ہے
مگر ہماری خمیدہ پشتیں جو پچھلی کتنی ہی ساعتوں سے
بس ایک دوجے کو تک رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھک گئی ہیں !
--------------
ہم اداسی کے اس دبستاں کا 
آخری مستند حوالہ ہیں 
اے مرے خواب چھیننے والے 
یہ مرا آخری اثاثہ ہیں
--------------
اس کی جانب سے بڑھا ایک قدم
میرے سو سال بڑھا دیتا ہے
--------------
تمہارے رنگ پهیکے پڑ گئے ناں ؟
مری آنکھوں کی ویرانی کے آگے
--------------
ہتھیلی سے ٹھنڈا دھواں اٹھ رہا ہے
یہی خواب ہر مرتبہ دیکھتی ہوں
--------------
روند پائے نہ دلائل میرے 
میرے دشمن بھی تھے قائل میرے
--------------

خالق بھی ہوں، رازق بھی ہوں،عورت ہوں میں لوگو...!
افسوس .......کہ تم نے..... مرا رتبہ نہیں سمجھا
--------------
ہمیں خبر ہے اِن آستینوں میں سانپ کتنے چُھپے ہوئے ہیں
ہم اپنے ہی دوستوں کی نظروں میں تِیر بن کر چبھے ہوئےہیں
--------------
دل میں سوئے سارے درد جگاتا ہے 
بن موسم کی بارش، ایسا نوحہ ہے
ناراضی میں ہجر کی دھمکی دیتی ہوں
سچ پوچھو تو سوچ کے بھی دل ڈرتا ہے
--------------
اندر ایسا حبس تھا میں نے کھول دیا دروازہ 
جس کو دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے
--------------
مِرے ہجر کے فیصلے سے ڈرو تم!
میں خود میں عجب حوصلہ دیکھتی ہوں
--------------
اِسے بهی چهوڑوں اُسے بهی چهوڑوں، تمہیں سبهی سے ہی مسئلہ ہے؟
مِری سمجھ سے تو بالا تر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پیار ہے یا معاہدہ ہے
ہم آج قوسِ قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں 
مجهے تو پہلے سے لگ رہا تها ، یہ آسمانوں کا سلسلہ ہے
--------------
عید کے دن یہ سوگوار آنکھیں
بد شگونی کا استعارہ ہیں
--------------
آئینہ دکھلاؤ تو ..... کردار کشی پر تل جائیں
کچھ لوگوں کے پاس یہی اک آخری حربہ ہوتا ہے
--------------
تمہیں پتا ہے؟ مرے ہاتھ کی لکیروں میں 
تمہارے نام کے سارے حروف بنتے ہیں
--------------
کل مجھے شاعروں کے جھرمٹ میں
چند شیطان بھی نظر آئے
آپ کو منہ نہیں لگایا تو
آپ بہتان پر اتر آئے
--------------
بهول جاتے ہیں ہمیشہ کہ علی کی بیٹی
غیض میں آئے تو ہل جائے خدائی صاحب
--------------
خون امڈ آیا عبارت میں، ورق چیخ اٹھے
میں نے وحشت میں ترے خط جو جلانا چاہے
نوچ ڈالوں گی اسے اب کے یہی سوچا ہے
گر مری آنکھ کوئی خواب سجانا چاہے
--------------
جن آنکھوں میں دیپ جلے تھے ان آنکھوں میں پانی ہے 
اک لمحے کے خواب کی قیمت ساری عمر چکانی ہے
--------------
لڑکھڑانا نہیں مجھے، پھر بھی 
تم مرا ہاتھ تھام کر رکھنا 
--------------
اس وطَن میں مقتدر ہونے کی پہلی شرط ہے
آدمی کے رُوپ میں شیطان ہونا چاہیئے
آپ جیسوں کو رعایا جھیلتی ہے کس طرح
آپ کو تو سوچ کر حیران ہونا چاہیئے
'نیم مُلّا خطرہ ایمان ' ہوتا ہے اگر
' پورا مُلّا غاصبِ ایما ن' ہونا چاہیئے
دل سےشرمندہ ہوں یہ اشعار جو میں نے کہے
آپ کے اعزاز میں دیوان ہونا چاہیئے
--------------
کبھی وہ وقت بھی آۓگا، تم بھی جانو گے
تُمہاری دید کسی کی حیات ہوتی ہے
تُو جب جہاں بھی میسر ہو بس اُسی پل میں
زمانے بھر کے دُکھوں سے نجات ہوتی ہے
--------------
زمانے اب تیرے مدِ مقابل 
کوئی کمزو سی عورت نہیں ہے
--------------
فریحہ نقوی

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...