Thursday 30 March 2017

Kabhi Tum Ne Ye Socha hai



کبھی تُم نے یہ سوچا ہے
جو ہم نے خواب دیکھے ہیں
اگر سب ٹُوٹ جائیں تو
ہماری روح کے اندر اندھیرا پھیل سکتا ہے
اور اِس گہرے اندھیرے میں
کبھی ہم کھو بھی سکتے ہیں
سُنو ایسا کبھی ہو تو مِری یادوں کے جنگل میں
بھٹک کر عمر بھر جاناں کبھی ہلکان مت ہونا
کوئی اپنا دِکھائی دے تو اُس کے ساتھ چل پڑنا
ذرا سی اِس رفاقت میں جو ہم نے خواب دیکھے ہیں
تم اُن خوابوں میں مت رہنا
ضروری تو نہیں جاناں کہ جو کچھ ہم نے سوچا ہے
مقدر میں بھی لِکھا ہو
یہاں اکثر وہی ہوتا ہےجو سوچا نہیں ہوتا
سُنو تم جانتے ہو ناں مقدر ہم نہیں لِکھتے
مِری جاں وقت ہم کو بھی کبھی اُس موڑ پر لایا
کہ میرے ہاتھ سے تیرا اچانک ہاتھ چُھوٹا تو
ہمارا ساتھ چُھوٹا تو
تو میرے ہجر میں خود کو کہیں جوگی نہ کر لینا
جدائی روگ ہے دل کو کہیں روگی نہ کر لینا
سُنو میں تو مُسافِر ہوں
مُسافِر کے مقدر میں سفر ہی ہو تو اچھا ہے
مسافر جان کر میری سبھی یادیں بُھلا دینا
مجھے دل سے مِٹا دینا
کبھی باتوں ہی باتوں میں اچانک یاد آؤں تو ذرا سا مُسکرا دینا


میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...