Thursday 30 March 2017

Ye Musafir


یہ مسافر
عمر کی سانولی سہ پہر کے کنارے 
گزرتے ہوئے وقت کے اِس نشیبی سرے پر
مسافر ۔۔۔ بہت سخت حیراں کھڑا ہے 
کہ جس طرح بے انت رستے نے 
اس کے قدم لے لیے ہیں
ہوا کی عمودی گزرگاہ پر ایک پتھر کی صورت
کبھی آسماں پر سیاہی میں ہلکی سی سرخی کے 
اس میل کو دیکھتا ہے 
کبھی دور تک دھوپ اور چھاؤں کے 
چمپئی کھیل کو دیکھتا ہے 
کبھی ہمکلامی کی خواہش سے بیتاب
اور دوسرے پَل ۔۔۔ بس اک لمسِ بے ساختہ کا
حسیں خواب
گہری خموشی کے بے انت میں 
زرد تنہائی میں 
اور عمروں پہ پھیلی ہوئی ۔۔۔ بے تمنائی میں 
سادہ دل ۔۔ سادہ رُو ۔۔ تشنۂ آرزو ۔۔۔ اک مسافر
جو عمرِ گریزاں کی اِس سہ پہر کے کنارے 
گزرتے ہوئے وقت کے اِس نشیبی سرے پر
بہت خوش تمنا کھڑا ہے 
اگر دیکھ پاتا کبھی ۔۔۔ اولیں صبح کی وہ گلابی
اگر دیکھ پاتا ۔۔۔ دہکتی ہوئی دوپہر آفتابی




ثمینہ راجہ

No comments:

Post a Comment

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...