Thursday, 2 April 2015

Khushbu hai, Dhanak hai

خوشبو ھے، دھنک ھے چاندنی ھے
وہ اچھے دِنوں کی شاعری ھے

بھیگے ھوئے پھُول حرف اُس کے
رِم جِھم کی زباں میں بولتی ھے


ہاتوں میں تھکن ھے شام جیسی
لہجے میں سَحر کی تازگی ھے

یہ اُس کی صدا کا بھولپن ھے
یا شمعِ سخن پگھل رہی ھے؟

چہرے یہ حیا کا روپ، جیسے
دریا میں شفق سی گھُل گئی ھے

آنکھوں میں گلاب کھِل رھے ھیں
کیا جانے وہ کب سے جاگتی ھے؟

برسا ھے خمار چاندنی کا.
یا اُس کی جبیں دَمک اُٹھی ھے؟

کیا جانے وہ کیسے مُسکرائی؟
ھیرے سے کرن سی چھَن پڑی ھے!

چہرے پہ بکھر کے زُلف اُس کی
سوُرج سے خراج مانگتی ھے

وہ محوِ خرام یوں ھے۔۔ جیسے
اِک شاخ ھوا سے کھیلتی ھے

پَل بھر کو سَرک گیا جو آنچل
کلیوں کی طرح سمٹ گئی ھے

پروا ھی نہیں ا ُسے کسی کی
اپنے سے وہ کتنی اجنبی ھے

آئینہ ھی دیکھتا ھے اُس کو
آئینہ کہاں وہ دیکھتی ھے؟

وہ غنچہ دَہن "سکوت زادی"
کھلنے پہ بھی کم ھی بولتی ھے

میں اُس کے بغیر کچھ نہ سوچوں
شاید وہ یہ بات سوچتی ھے

میں اُس کی انا کا بانکپن ھوں
وہ میری غزل کی دلکشی ھے

میں گرم رتوں کی لَو کا موسم
وہ سَرد رتوں کی سادگی ھے

اے خَلوتَیانِ مہ جبیناں.
وہ آپ ھی اپنی آگہی ھے.

اے مُشتریانِ حُسنِ عالَم
وہ دونوں جہاں سے قیمتی ھے

سو بار میں اُس سے کھو گیا ھوں
ہنستی ھوئی پھر سے مل گئی ھے

میں اُس کی رفاقتوں پہ نازاں
محسن وہ غرورِ دوستی ھے

محسن یہ نہ کُھل سکے گا مجھ پہ
وہ فن ھے کہ فن کی زندگی ھے

"محسن نقوی"

Aay Shareef Insaano

اے شریف انسانو
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل ـ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن ـ عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح ـ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدان ـ کشت وخوں ہی نہیں
حاصل ـ زندگی خِرد بھی ہے
حاصل ـ زندگی جنوں ہی نہیں
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ، وحشت سے بربریّت سے
امن، تہذیب و ارتقا کے لئے
جنگ، مرگ آفریں سیاست سے
امن، انسان کی بقا کے لئے
جنگ، افلاس اور غلامی سے
امن، بہتر نظام کی خاطر
جنگ، بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن، بے بس عوام کی خاطر
جنگ، سرمائے کے تسلّط سے
امن، جمہور کی خوشی کے لئے
جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن، پُر امن زندگی کے لئے

ساحر لدھیانوی

Titli Ne gul ko choom kar

تتلی نے گل کو چوم کے دلھن بنا دیا
اے عشق تونے سونے کا کندن بنا دیا

تیرے ہی عکس کو تیرا دشمن بنا دیا
آئینے نے مزاق میں سَوتَن بنا دیا

میں نے تو صرف آپ کو چاہا ہے عمر بھر
یہ کس نے آپ کو میرا دشمن بنا دیا

منور رانا

Meri Baat bech me reh gayi

تیرے اِرد گِرد وہ شور تھا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کہ سکا نہ تُو سُن سکا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

میرے دل کو درد سے بھر گیا، مجھے بے یقین سا کرگیا
تیرا بات بات پہ ٹوکنا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

ترے شہر میں مِرا ہم سفر، وہ دُکھوں جمِّ غفیر تھا
مجھے راستہ نہیں مل سکا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

وہ جو خواب تھے مِرے سامنے، جو سراب تھے مِرے سامنے
میں اُنہی میں ایسے اُلجھ گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

عجب ایک چُپ سی لگی مجھے، اسی ایک پَل کے حِصار میں
ہُوا جس گھڑی ترا سامنا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

کہیں بے کنار تھی خواہشیں، کہیں بے شمار تھی اُلجھنیں
کہیں آنسوؤں کا ہجوم تھا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

تھا جو شور میری صداؤں کا، مِری نیم شب کی دعاؤں کا
ہُوا مُلتفت جو مِرا خدا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

تی کھڑکیوں پہ جُھکے ہوئے، کئی پھول تھے ہمییں دیکھتے
تری چھت پہ چاند ٹھہر گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

مری زندگی میں جو لوگ تھے، مِرے آس پاس سے اُٹھ گئے
میں تو رہ گیا اُنہیں روکتا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

ِِتِری بے رخی کے حِصار میں، غم زندگی کے فشار میں
مرا سارا وقت نکل گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

مجھے وہم تھا ترے سامنے، نہیں کھل سکے گی زباں مِری
سو حقیقتاً بھی وہی ہوا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

امجد اسلام امجد

Tery ird gird woh shoor Tha, Meri baat bech me reh gayi
Na me keh saka Na Tu Sun saka, Meri baat bech me reh gayi

Mery dil ko dard sy bhar gaya, Mujhay Be-Yaqeen sa kar gaya
Tera baat baat py tokna, Meri baat bech me reh gayi

Tery shehar me mera humsafer, Woh dukhoon ka jam-e-ghafeer tha
Mujhay rasta nahi mil saka, Meri baat bech me reh gayi

Woh Jo khawab thay meray samnay, Jo saraab thay Meray saamny
Me unhein mein aisay ulajh gaya, Meri baat bech men reh gayi

Ajab aik chup C lagi Mujhay, isi aik pal K hisaar men
Hua jis gharri tera samna, Meri baat bech men reh gayi

Kahein be-kinaar thi khahishein, Kahein Be-shumaar Thi uljhanein
Kahein aansuoon Ka hajoom Tha, Meri baat bech me reh gayi

Tha jo shoor meri sadaoon Ka, Meri neem shab Ki duaaon Ka
Hua multaft jo mera KHuda, Meri baat bech men reh gayi

Teri Khirkiyoun py jhukay huey, Kayii phool thay humein deikhtay
Teri chhat py chaand thehar gaya, Meri baat bech men reh gayi

Meri zindagi me jo log thay, Meray aaas paas sy uth gaye
Me to reh gaya unhein rokta, Meri baat bech men reh gayi

Teri berukhi K hisaar men, gham-e-zindagi K fishaar me
Mera saara waqt nikal gaya, Meri baat bech men reh gayi

Mujhay wehm Tha Tery samnay, Nahi Khul sakay gi Zubaan Meri
So haqeeqtann Bhi wohi hua, Meri baat bech me reh gay

i

Tumhein Keisay batayein hum

تمہیں کیسے بتائیں ہم
محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
کہانی میں
تو ہم واپس بھی آتے ہیں
محبت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
ذرا سوچو !
کہیں دل میں خراشیں ڈالتی یادوں کی سفاکی
کہیں دامن سے لپٹی ہے کسی بُھولی ہوئی
ساعت کی نم ناکی
کہیں آنکھوں کے خیموں میں
چراغِ خواب گُل کرنے کی سازش کو
ہوا دیتی ہوئی راتوں کی چالاکی
مگر میں بندہ خاکی
نہ جانے کتنے فرعونوں سے اُلجھی ہے
مرے لہجے کی بے باکی
مجھے دیکھو
مرے چہرے پہ کتنے موسموں کی گرد
اور اِس گرد کی تہہ میں
سمے کی دُھوپ میں رکھا اِک آئینہ
اور آئینے میں تا حد نظر پھیلے
محبت کے ستارے عکس بن کر جھلملاتے ہیں
نئی دنیاؤں کا رستہ بتاتے ہیں
اِسی منظر میں آئینے سے اُلجھی کچھ لکیریں ہیں
لکیروں میں کہانی ہے
کہانی اور محبت میں ازل سے جنگ جاری ہے
محبت میں اک ایسا موڑ آتا ہے 
جہاں آ کر کہانی ہار جاتی ہے
کہانی میں تو کُچھ کردار ہم خود فرض کرتے ہیں 
محبت میں کوئی کردار بھی فرضی نہیں ہوتا
کہانی کو کئی کردار
مل جُل کر کہیں آگے چلاتے ہیں
محبت اپنے کرداروں کو خود آگے بڑھاتی ہے
کہانی میں کئی کردار
زندہ ہی نہیں رہتے
محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی
کہانی کے سفر میں
منظرون کی دُھول اُڑتی ہے
محبت کی مُسافت راہ گیرون کو بکھرنے ہی نہیں دیتی
محبت اِک شجر ہے
اور شجر کو اس سے کیا مطلب
کہ اس کے سائے میں
جو بھی تھکا ہارا مُسافر آ کے بیٹھا ہے
اب اُس کی نسل کیا ہے ، رنگ کیسا ہے
کہاں سے آیا ہے
کس سمت جانا ہے
شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا
دُھوپ سہنا ہے
اُسے اِس سے غرض کیا ہے
پڑاؤ ڈالنے والوں میں کس نے
چھاؤں کی تقسیم کا جھگڑا اُٹھایا ہے
کہاں کس عہد کو توڑا ، کہاں وعدہ نبھایا ہے
مگر ہم جانتے ہیں
چھاؤں جب تقسیم ہو جائے
تو اکثر دُھوپ کے نیزے
رگ و پَے میں اُترتے ہیں
اور اس کے زخم خوردہ لوگ
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں !

سلیم کوثر

Zindagi Tum Py nahi utri

زندگی تم پہ تو نہیں اُتری

سانس لیتا ہوں میں بھی زندہ ہوں
فرق ہے تو فقط نصیبوں کا
میرے ہاتھوں میں خشک لمحے ہیں
وقت گیلا ہے تیری مٹھی میں

اظہر کلیانی

YE aik Naam

یہ ایک نام

شفق سے دُور ، ستاروں کی شاہراہ سے دُور 
اُداس ہونٹوں پہ جلتے سُلگتے سِینے سے 
تمھارا نام کبھی اِس طرح اُبھرتا ہَے 
فضا میں جیسے فرشتوں کے نرم پَر کُھل جائیں 
دِلوں سے جَیسے پُرانی کدُورتیں دُھل جائیں
یہ بولتی ہُوئی شب ، یہ مُہِیب سناٹا !
کہ جیسے تُند گناہوں کے سینکڑوں عفرِیت 
بس ایک رات کو دُنیا کے حُکمراں ہو جائیں 
اجل کے غار سے نِکلی ہُوئی گراں رُوحیں 
لُہو سے پیاس بُجھا کر کہیں مزاروں میں 
نشے کے بوجھ سے چِیخیں ، تو چِیختی رہ جائیں
اِسی جنوں میں ، اِسی آندھیوں کے میلے میں 
تمھارا نام کہیں دُور جگمگاتا ہَے 
سفید ، دودھ سے شفاف ، عکس سے نازک 
اُداس رُوح کی لہروں پہ نرم دیپ جلائے
تمھارے نام سے یادوں کے کاروانوں میں 
چمکتی جاگتی چاندی کی گھنٹیوں کی کھنک 
کچھ آنسوؤں کی گُھلاوٹ ، کچھ آرزو کی کسک
یہ ایک نام نہ ہوتا تو اِس اندھیرے میں 
جہاں سحر کا پتہ ہَے نہ زندگی کا سُراغ 
نہ جانے کِتنے عقیدے ، نہ جانے کِتنے چراغ 
تلاش کرتے مگر روشنی نہیں مِلتی 
ہزار رنگ بِکھرتے ، ہزار کچے رنگ 
جو اَب نصِیب ہَے وُہ سادگی نہیں مِلتی

Zard Kalaii Kala Dhaga

ذرد کلائی کالا دھاگا
درد کی جلتی دوپہروں میں
جیون ہار کے چلتے چلتے 
کالی رات سی کالی ہو گئی
دیکھ
دیکھ میں ہجراں والی ہوگئی

Khizaan Ki sard shamein

ﺧﺰﺍﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ ﺳﺮﺩ ﺷﺎﻣﯿﮟ
ﺳﺮﺍﺏ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ
ﺗﮭﺎﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ
ﻣﺎﯾﻮﺳﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺼﺎﺏ ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ
ﺑﮯ ﻧﻮﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ
ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﮐﮧ
ﺧﻮﺍﺏ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ
ﭼﻮﮐﮭﭧ ﭘﮧ ﺁ ﺭُﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺴﺎﻓﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﮭﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻏﺒﺎﺭ _ﺭﺍﮦ ﺳﮯ ﺍﭨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﭗ
ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﮈﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ
سوالی ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺗﮏ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭼﻮﮐﮭﭧ ﭘﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﺳﮯ ؟؟
ﺟﺒﯿﮟ ﺟﮭﮑﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﮟ

Muhobat Saans Leti hai

محبت سانس لیتی ہے، اسے اک بار جب یہ بولا تھا وہ بہت ہنسی تھی ۔ اس کی نیلگوں آنکھیں پانیوں سے بھر گئی تھیں۔ اپنے حنائی ہاتھوں سے آنکھوں کو پونچھتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا، تم نے کبھی محبت کا سانس محسوس کیا ہے؟ میں نے کچھ نہیں کہا۔ مجھے اس کی آنکھوں میں لکھی بے یقینی نظر آ رہی تھی۔ اسے کیسے بتاتا کہ جب سے اس سے ملا ہوں تب سے اب تک میرے بدن میں لہو کی بوند بوند میں فقط اس کی محبت ہے۔ ہر نیا سانس اس محبت کو تازہ کر دیتا ہے، ہر نیا لمحہ اس محبت کو مضبوط کر دیتا ہے ، ہر نیا دن اس محبت میں اضافہ کر دیتا ہے اور نئی رات اس محبت کے آسمان پر کئی سندر خواب ٹانک دیتی ہے ۔ میں شدید خواہش کے باوجود اس سے یہ نہیں کہہ سکا کہ اس کی آنکھیں مری شاعری کی تحریک ہیں، اس کی ہنسی کی جلترنگ مجھے میرے ہونے کا احساس دلاتی ہے ، اس سے دُوری میرے جیون سے سب رنگ لے جاتی ہے اور اس کا خیال ذہن و دل کو روشن کر دیتا ہے۔ مجھے سوچ میں گم دیکھ کر اس نے میری آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرایا اور مسکرا کر بولی، کہاں کھو گئے شاعرِ وقت؟ان باتوں کو چھوڑو بتاؤ کچھ نیا لکھا؟ میں نے اس کی منتظر آنکھوں کی طرف دیکھا جن میں ہنسی کے کچھ پل ابھی بھی چمک رہے تھے اور نفی میں سر ہلا دیا۔ نئی لکھی ہوئی نظم مری جیب میں پڑی بین کر رہی تھی اور نظم کے عنوان کے بھیگے حروف میں بند کاغذ میں بھی محسوس کر سکتا تھا۔

عاطف سعید

Muhobat Zindagi Hai

محبت زندگی ہے

محبت جب دبے پاؤں کسی دل کی طرف آئے
بہت آہستگی سے اُس کے دروازے پہ دستک دے
تو اُس دستک کے جادُو سے
دَرودیوار کی رنگت بس اِک پَل میں بدلتی ہے
فضا کی نغمگی اِک اجنبی خوشبو میں ڈھلتی ہے
تو پھر کچھ ایسا ہوتا ہے
اسی لمحے کی جھلمل میں
بہت ہی سرسری سے اِک تعلق کی ہَوا ایک دم
کسی آندھی کی صُورت ہر طرف لہرانے لگتی ہے
وہ اک لمحہ، زمانوں پر کچھ ایسے پھیل جاتا ہے
کہ کوئی حدّ نہیں رہتی
یہ کُھلتا ہے
محبت زندگی کا ایک رستہ ہی نہیں
منزل نشاں بھی ہے
یقینوں سے جو افضل ہو یہ اک ایسا گماں بھی ہے
یہ ایسا موڑ ہے جس پر سفر خود ناز کرتا ہے
اِک ایسا بیج ہے
جو زندگی میں"زندگی" تخلیق کرتا ہے
اُسے تعمیر کرتا اور نئے مفہوم دیتا ہے
بتاتا ہے


"محبت زندگی ہے اور جب یہ زندگی
دِن رات کی تفریق سے آزاد ہو جائے
تو ماہ و سال کی گِنتی کے وہ معنی نہیں رہتے
جو اَب تک تھے"
سِمٹ جاتے ہیں سب رشتے
اک ایسے سلسلے کی خوش نگاہی میں
کہ اک دوجے کی آنکھوں میں ہُمکتے خواب بھی ہم دیکھ سکتے ہیں
جہاں ہم سانس لیتے ہیں
اور جن کی نیلگوں چادر کے دامن میں
ہمارے "ہست" کا پیکر سنورتا ہے
وہ صدیوں کے پُرانے، آشنا اور اَن بنے منظر
کئی رنگوں میں ڈھلتے،
خوشبوؤں کی لہر میں تحلیل ہوتے ہیں
زمیں چہرہ بدلتی ہے، آسماں تبدیل ہوتے ہیں

محبت بھی وفا صورت
کسی قانون اور کُلیئے کے سانچے میں نہیں ڈھلتی
کہ یہ بھی انگلیوں کے ان نشانوں کی طرح سے ہے
کہ جو ہر ہاتھ میں ہو کر بھی آپس میں نہیں ملتے
یہ ایسی روشنی ہے
جس کے اربوں رُوپ ہیں لیکن
جسے دیکھو وہ یکتا ہے
نہ کوئی مختلف اِن میں نہ کوئی ایک جیسا ہے

محبت استعارا بھی، محبت زندگی بھی ہے
ازل کا نور ہے اس میں، اَبد کی تیرگی بھی ہے
اِسی میں بھید ہیں سارے، اِسی میں آگہی بھی ہے

امجد اسلام امجد

Kabhi Veraan Rastooon Par

ﮐﺒﮭﯽ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﭘﺮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺳﯽ ﺩﺳﺘﮏ
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﮮ
ﺳﺪﺍ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﻣﺖ ﺗﻢ
ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﺎﺭِ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ
ﺍَﺫِﯾﺖ ہی ﺍَﺫِﯾﺖ ﮨﮯ۔۔۔

Ajab Pagal C Larki hai

عجب ﭘﺎﮔﻞ ﺳﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﮩﮑﺘﯽ!!
ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﯽ!!
ﮔﻨﮕﻨﺎﺗﯽ!
ﺧﻮﺍﺏ ﺳﯽ گہری ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﺒﮭﯽ ﺭﻧﮕﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ
ﻭﻩ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺳﺒﮭﯽ ﻣﻌﻨﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍُﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ!
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﮯ ﺗﺤﺎﺷﺎ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﻭﺍﻻ
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻗﺼﮯ ﺩﺍﺳﺘﺎﻧﯿﮟ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ
ﮨﺮ ﺍﮎ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﺮ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻭﻩ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ!
ﻣﺮﯼ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺤﻮﺭ ﮨﻮ
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﯿﮑﺎﺭ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﺮﺍ ﮨﺮ ﺩﻥ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ سوچ ﮐﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﺳﮯ ﺍُﮔﺘﺎ ﮨﮯ
ﻣﺮﯼ ﮨﺮ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﯽ ﮨﻮ
ﻣﺮﯼ ﮨﺮ ﺭﺍﺕ ﮐﺮﺏِ ﻧﺎﺭﺳﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﺳﻠﮕﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﮔﺮ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻨﮩﺎ ﮐﺮﻭﮞ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﺘﺎ
ﺍُﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ!
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺷﺐ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ ﺟﺎﮔﻨﮯ ﻭﺍﻻ
ﺟﺴﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ
ﻭﻩ ﮐﯿﻮﮞ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﮯ؟
ﺍُﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺧﻮﻑ ﻻﺣﻖ ﮨﮯ؟
ﻭﻩ ﮐﮭﻞ ﮐﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻨﺴﺘﺎ؟
ﻭﻩ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﮭﭗ ﭼﮭﭗ ﮐﮯ ﺭﻭﺗﺎ ﮨﮯ؟
ﺍُﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ
ﻣﮕﺮ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍُﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﺳﻤﺠﮭﺎﮰ
ﮐﮧ ﺩﻝ ﯾﻮﮞ ﻧﺎﺭﺳﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺗﭙﺶ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﻧﻮﮞ ﺗﮏ ﺳﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺟﺴﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ
ﻭﻩ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻨﺎ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﺩﮬﻮﺭﺍ ﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﺍُﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﺳﻤﺠﮭﺎﮰ!...
ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺗﺤﺎﺷﺎ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﻭﺍﻻ
ﮨﺮ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﮧ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺌﯽ ﺳﭙﻨﮯ ﺳﻤﻮ ﺟﺎﺅ
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺑﻦ ﺍﺩﮬﻮﺭﺍ ﮨﻮﮞ
ﻣﺮﯼ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ

عاطف سعید

Muhobat K 2 Roop

محبت کے دو رُوپ

محبت کی کوئی بھی طے شدہ صورت، کوئی سانچہ نہیں ہوتا
یہ جس بھی دل میں پیدا ہو
اُسی کے ظرف میں ڈھل کر کوئی پیکر بناتی ہے
کہیں گہرائی ہے اس میں
کہیں رفعت، کہیں وسعت
اسے جس سمت سے دیکھو
یہ ہر اِک زاویئے سے اک نیا منظر بناتی ہے
مگر یہ ایسا تحفہ ہے کہ جو قسمت سے ملتا ہے
کئی دل ہیں کہ جن کو دیکھ کر
یہ دُور سے رستہ بدل جائے
انہیں چُھو کر گزرنا بھی اسے اچھا نہیں لگتا
کہ یہ جذبوں کی بھی اشیا نمط قیمت لگاتے ہیں
انہیں اغراض کی میزان پر تو لے بِنا
رستہ نہیں دیتے
اور ان کے بانجھ سینوں میں
ہوس کی آگ کے شعلے
کبھی مدھم نہیں ہوتے
محبت اور اِس سے ملتے جلتے سارے جذبوں کو
یہ پتھر سے تراشے دل ٹشو پیپر سمجھتے ہیں
ٹشو پیپر
کہ جن کی آخری منزل وہ کُوڑے دان ہوتی ہے
جہاں ہر شے کسی لا، شے کی صورت، شکل سے محروم ہوجائے
جہاں ہلچل نہیں مچتی، جہاں موسم نہیں ہوتے
زرا سوچو
تو ایسے دل بھی کُوڑے دان سے کچھ کم نہیں ہوتے

امجد اسلام امجد

Woh Aankhein Jheel C

وہ آنکھیں
جھیل سی آنکھیں
بہت گہری ہیں
ان میں تیرتے آنسو
کئی مفہوم رکھتے ہیں
وہ آنکھیں
ایک مدت سے
بدلتے موسموں
بنتے،بگڑتے منظروں کی زد میں ہیں
لیکن
انہیں کچھ خواب
اپنے مخملیں احساس سے مسحور رکھتے ہیں
وہ آنکھیں
منتظر ہیں،کب کوئی آئے
حسیں خوابوں کو اپنے سحر سے
تعبیر میں بدلے
بہت سی ان کہی باتوں کے در کھولے
بہت سے بے نشاں جذبوں کو
آحساس شراکت دے
وہ گہری جھیل سی آنکھیں
کئی قصے سنانے کے لیے بے چین پھرتی ہیں
وہ گہری جھیل سی آنکھیں
کئی مفہوم رکھتی ہیں

یوسف خالد

Ye Janti Hoo Tum

یہ تم جانتی ہو میں ضدی بہت ہوں
انا بھی ہے مجھ میں
میں سنتا ہوں دل کی )فقط اپنے دل کی(
کسی کی کوئی بات سنتا نہیں ہوں
مگن اپنی دھن میں صبح و شام رہنا
کوئی درد اپنا کسی سے نہ کہنا
یہ عادت ہے میری
میں عادت بھی کوئی بدلتا نہیں ہوں
یہ تم جانتی ہو
مگر یہ بھی سچ ہے
میں ضد چھوڑ دوں گا
انا کی یہ دیوار بھی توڑ دوں گا
بدل لوں گا ہر ایک عادت بھی اپنی
"اگر تم کہو گی"

عاطف سعید

Woh Chanchal Albbeli Larki

وہ چنچل البیلی لڑکی

وہ چنچل البیلی لڑکی میری نظمیں یوں پڑھتی ہے
جیسے ان نظموں کا محور
اس کی اپنی ذات نہیں ہے
یعنی اتنی سندر لڑکی اور بھی ہو سکتی ہیں
جیسے اس کو علم نہیں یہ ساری باتیں اس کی ہیں
ساری گھاتیں اس کی ہیں
ہر آہٹ ہے اس کی خوشبو سب سائے ہیں اس کے سائے
سارے محل اس کے ہیں
ہر خوشبو ہے اس کی خوشبو سب چہرے ہیں اس کے چہرے
سارے آنچل اس کے ہیں
جیسے اس کو علم نہیں ہے اس لڑکی کے سارے کام
سارے نام اسی کے ہیں
ہر کھڑکی ہے اس کی کھڑکی سارے بام اسی کے ہیں
اس لڑکی کے نام سے میں نے جو کچھ اپنے نام لکھا ہے
اس سے ہی منسوب ہوا
شاید میرا وہم ہو لیکن میں نے یہ محسوس کیا ہے
جب میں نظم سناتا ہوں وہ آنکھ چرانے لگتی ہے
مجھ سے نظریں مل جائیں تو وہ شرمانے لگتی ہے
کچھ لمحے وہ چنچل لڑکی گم سُم ہو جاتی ہے
لیکن تھوڑی دیر میں پھر سے پتھر کی ہو جاتی ہے
جیسے میری نظم کی لڑکی

امجد اسلام امجد

Me Kuch Nahi hoon

"میں کچھ بھی نہیں"

اگر میں ڈاکیہ ہوتا
ہوا کے ہاتھ سے لِکھے
پُھولوں کے خط لے کر
تمہارے گھر پہنچ جاتا


جولاہا، میں اگر ہوتا
تو کھڈی پر تمہارے سانس سے
چادر بنا لیتا

اگر میں باغباں ہوتا
گزرتے بادلوں کے ہاتھ سے
چھاگل پکڑ کر
سُوکھتے پودوں کے پیروں میں اُلٹ دیتا

سپاہی میں اگر ہوتا
تو بچوں کا تبسّم جمع کر کے
دُشمنوں کی فوج کو مغلوُب کر دیتا

اگر میں مِستری ہوتا
تو سچے پیار کی بُنیاد پر
روشن خیالی کا جہاں تعمیر کر دیتا

اگر میں ماسٹر ہوتا
تو کالی رات کے تختِ سِیہ کو
میں تمہارا نام لکھ لکھ کر
سفیدی میں بدل دیتا!

شاھنواز زیدی

Meri Zindagi Ki Kitaab me

میری زندگی کی کتاب میں
میرے روز و شب کے حساب میں
تیرا نام جتنے صفحوں پہ ہے
تیری یاد جتنی شبوں میں ہے
وہی چند صفحے ہیں متاعِ جان
اُنہی رتجگوں کا شمار ہے

Ajnabi Shaam

دهند چھائی هوئی هے جھیلوں پر

اڑ رهے هیں پرندے ٹیلوں پر
سب کا رخ هے نشیمنوں کی طرف
بستیوں کی طرف' بنوں کی طرف
اپنے گلوں کو لے کے چرواهے
سرحدی بستیوں میں جا پهنچے
دل_ناکام! میں کهاں جاؤں؟
اجنبی شام! میں کهاں جاؤں؟

جون ایلیاء

Nazuk Jazboon Wali Larki

نازک جذبوں والی لڑکی
سارے جذبے دل میں لیکر
ٹھنڈی رات کے سائے میں
چلتے ہوئے دم توڑ گئی

Me beti hoon

میں بیٹی ہوں
مرے دنیا میں آتے ہی
بہت سے وسوسے آکر مری ماں کو ڈراتے ہیں
وہ ہر پل سوچتی ہے یہ
مری قسمت نہ جانے کون سے دکھ
اپنے دامن میں لیے ہوگی
مرا بھائی اگر کوئی شرارت کررہا ہو تو
بڑے انداز سے یہ دنیا والے
مری ماں سے یہ کہتے ہیں
ارے لڑکا ہے جانے دو
مگر میرے لیے ان کی نگاہوں سے
فقط شعلے برستے ہیں
میں بولوں تو کہا جاتا ہے
اچھی لڑکیاں بولا نہیں کرتیں
وہ اپنے باپ اور بھائی کے ہر فرمان کو سنتی ہیں
اور سر کو جھکاتی ہیں
کہ وہ ہر حال میں کنبے کی عزّت بچاتی ہیں
میں سوچوں تو
مری سوچوں کے پر یہ کہہ کے اکثر کترے جاتے ہیں
کہ
اچھی لڑکیاں تو بےسروپا بات کو سوچا نہیں کرتیں
مگر میں کیا کروں کہ
میرے خالق نے
مجھے انسان بنایا ہے
مرے سینے میں دل اور ذہن کو ادراک بخشا ہے
میں حرف مدعا کے پھول ہونٹوں پر سجانا چاہتی ہوں
میں اپنے ذہن میں سوچوں کی پھلواری لگانا چاہتی ہوں
میں اک مدّت سے زندہ ہوں
مگر
مرے مالک میں جینا چاہتی ہوں

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...