Friday, July 15, 2016

Naraaz



ناراض

رات ہم سے دیر دیر تک ناراض رہتی ہے
ہمیں غصہ آتا ہے
بہت سہارتے ہیں تو جنجھلا جاتے ہیں
اور بے بسی سے روہانسے ہو جاتے ہیں
اور آنسوؤں سے لبا لب بھرے ہوئے کٹوروں کے باوجود
ہنس دیتے ہیں
جیسے کسی نے عمر قید کاٹنے والے کسی کو
ہنسنے کی بیگار پر لگا دیا ہو
رات ہم سے دیر تک ناراض رہتی ہے
اور ہمارے سینے پر
بھاری بھرکم سوچیں لا دھرتی ہے
اور ذار دور کھڑی ہو کر
ہمارے طرف نوکیلے اور سخت خدشے اچھالتی ہے
اچھالتی کیا ہے زور سے دے مارتی ہے
ہمارے آنسوؤں کو اندر سے ہمارے دل سے باندھ دیتی ہے
سانسوں کی بھیگی ہوئی رسیاں کستی چلی جاتی ہے
رسیاں بار بار کھینچتی ہیں
دل بار بار ڈوبتا ہے
دل بار بار ڈوبتا ہے رات پھر بھی ہم سے ناراض رہتی ہے
رات ہم سے دیر دیر تک ناراض رہتی ہے


فرحت عباس شاہ

Ay Gulaab e Jaan

اے گُلابِ جَاں ، اے گُلابِ من
مِری بات سُن، مِری بات سُن
تُجھے توڑ لوں یہ کہا نہ کر
مِرے ساتھ ساتھ رہا نہ کر
مِرے ہاتھ چھلنی ہیں اِس قدر
تُجھے توڑنے کی سَکت نہیں
یہ لہو لہو سا بدن مِرا
کوئی زِندگی کی رمق نہیں
مِرے ہم نوا مِرے دِل جگر
بڑی دیر بعد مِلا ہے تُو
تِرے آنے سے ذرا پیشتر
کوئی خار مُجھ میں چبھو گیا
کوئی موت مُجھ میں سمو گیا

Barish

بارش

تمہارے ساتھ بتائی ہوئی بارش
اور وہ بھی جو تمہارے بغیر بیت گئیں
میرے اندر برستی رہتی ہیں
مسلسل اور مستقل
میرے اندر بہت ساری آرزوؤں کے در و دیوار
اور سپنوں کے محل مسمار ہوتے جارہے ہیں
وہ پیڑ جو پہلے دھل گئے تھے
اب مرجھاتے جا رہے ہیں
بہت سارے ایسے راستے بند ہو چکے ہیں
جن پر کبھی کوئی جگنو اور کوئی تتلی
تمہاری طرف سے میری طرف
یا میری طرف سے تمہاری طرف
آتے جاتے تھے
مجھے پتہ ہے میری بنیادوں میں رفتہ رفتہ
پانی اترتا جا رہا ہے
نہ جانے تمہیں پتہ ہے کہ نہیں
تمہیں یاد ہے بارش ہمیں بہت رلایا کرتی تھی
کھڑکیوں کے شیشوں سے ایک دوسرے کو دھکا دے کر
نیچے پھسلائے ہوئے قطرے
اور رخساروں پر لکیریں کھینچتے ہوئے آنسو
اور ہم دونوں کے درمیان ایک بھیگی ہوئی خاموشی
یہ سب کچھ بیک وقت ہو جاتا تھا 
اب تمہارے بغییر بیتی ہوئی بارش
تمہارے ساتھ بیتی ہوئی بارش سے زیادہ رلاتی ہے
اور کہیں کوئی راستہ کھلا نہیں رہنے دیتی
-
فرحت عباس شاہ

Ik Baar Kaho Tum Mery Ho

مرے دل کے شام سویرے ہو
"اک بار کہو تم میرے ہو"
مجھے تم بن کچھ نہ دکھائی دے
کیوں اتنے گھور اندھیرے ہو
میں پنچھی پیار کے دیسوں کی
تم میرے رین بسیرے ہو
میں مال و منال محبت کا
تم ڈاکو چور لٹیرے ہو
کچھ بولو یا آزاد کرو
کیوں خاموشی سے گھیرے ہو
-
فرحت عباس شاہ

KhawabZaadi

خواب زادی
-
خواب زادی
مرے شہرِ ویران سے لوٹ جا
رتجگوں کی قسم
شہرِ ویران کا کوئی بازار، کوئی گلی، کوئی گھر
سبز رنگوں کے موسم سے واقف نہیں
شام کا ماتمی دھندلکا
رات کی نوحہ خواں تیرگی سے بھی زیادہ المناک ہے
پھول کھلنے کی امید میں شاخ مرجھا گئی ہو جہاں
اور جاڑے کے جھوٹے دلاسوں سے بہلی ہوئی سر زمین
اپنا احساس ہی کھا گئی ہو جہاں
اور برسات بھی راکھ برسا گئی ہو جہاں
کیا ملے گا تجھے
تو مِری مان اور خامشی سے اَٹی
راہِ سنسان سے لوٹ جا
فاصلوں کی قسم
شہرِ ویران میں بس تصور ہی بستا رہا ہے ہمیشہ
کبھی خوشبوؤں کا کبھی خوشبوؤں سے بھری صبح بے گرد کا
چاند کا تو کبھی چاند کے درد کا
دوستوں کا کبھی اور کبھی دشمنوں کا
کبھی عام سے فرد کا
وہ تصور کہ جس نے کبھی بھی کہیں جسم پہنا نہیں ہے
وہ تصور کہ جس نے کبھی دل کے زخموں پہ
مرہم تو کیا
پیار سے ہاتھ بھی رکھ کے دیکھا نہیں
چکھ کے دیکھا نہیں ذائقہ جس نے
محرومیوں کے علاوہ کسی روپ کا
ایک ہی وقت دیکھا ہے اس نے مسلسل
کڑی دھوپ کا
جس نے اک لمحے کو بھی تو سوچا نہیں
اس کی پاداش میں ہم پہ بیتا ہے کیا
ہم نے ہارا ہے کیا اس نے جیتا ہے کیا
خواب زادی
یہاں ہر قدم پہ
دعاؤں کے سینوں میں بہری ہواؤں کے نیزے گڑے ہیں
سسکتی وفاؤں کے پتھر پڑے ہیں
اگر اتفاقاً کبھی آ بھی جاؤ
تو دو نیم مُردہ تھکی ہاری آنکھیں
گُلِ اَشک تم پر نچھاور کریں
بے زبانی میں جکڑے ہوئے راستے 
وَا کریں اپنی بانہیں
کراہیں تمہارے لیے شادیانے بجائیں
تو کیا اتنے پس ماندگانِ محبت کے حسرت زدہ بین تم سے سنے جائیں گے؟
بُنے جا سکیں گے دوبارہ وہ سپنے؟
جنھیں کوئی بُنتا نہیں
کیا سُنے جا سکیں گے وہ نوحے؟
جنھیں کوئی سُنتا نہیں
خواب زادی!
ابھی وقت ہے
اب بھی دستک نہ دے
اپنی جانب لپکتا الم روک لے
تیری آنکھوں کی معصومیت میں
پرانے دکھوں کی لکیریں تو ہیں
پھر بھی کتنے ہی گوشے
ابھی
جستجو کے مصائب سے خالی
تمناؤں کے کرب سے اتنے واقف نہیں
تیرے چہرے پر کھلتی ہوئی چاندنی بھی ابھی
ہجر کی گرد سے صاف اور پاک ہے
تیری آواز کے سُر
ابھی تک اذیت بھری لرزشوں سے بہت دور ہیں
ترے ہونٹوں کی نرمی
ابھی تک جدائی کی سختی سے محروم ہے
ان کو محروم رہنے دے اور
ان کی شیرینیوں پہ مچلتی جو مسکان ہے
یہ تو انجان ہے
یہ تو کتنی ہی بے چینیوں کا سفر جانتی ہی نہیں
خواب زادی
زمینِ تمنا کی اس بستیِ کرب کے پیچ و خم کی طرف
اپنا بڑھتا ہوا ہر قدم روک لے
خواب زادی 
تو کس سوچ میں گم کھڑی ہے مرے دل ک دہلیز کے پاس
بامِ پریشان سے لوٹ جا
لوٹ جا اس دریچہِ ارمان سے لوٹ جا
میں ہنسا اور تو نے یہ جانا کسی اَنگ کی سر خوشی سے ہنسا ہوں
میں بولا تو تُو نے یہ سمجھا کسی سُکھ نے رستہ دیا ہے
میں کچھ گنگنایا تو تُو نے یہ سوچا مری روح میں نغمگی بولتی ہے
تجھے کیا پتہ
لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کو مٹی میں دفنا کے آتے ہیں
اور گنگ ہوتے نہیں
ارتھیاں بھی اٹھاتے ہیں پیاروں کی
اور سانس بھی لے رہے ہوتے ہیں
اور مرتے نہیں
اور پھر کچھ دنوں بعد ہی
مسکراتے بھی ہیں
کھلکھلاتے بھی ہیں
میں بھی سینے میں
آہوں کی ٹھنڈی ہوائیں لیے
آنسوؤں کے سمندر چھپائے 
کہیں آس کی دھول اڑتی ہوئی قبر پر
تو کہیں آرزو کی ٹھٹھرتی ہوئی لاش پر
مٹھیاں بھینچتے، دانت ہونٹوں کے زخمی بدن پر جمائے
چلا جا رہا ہوں
مری خواب زادی سنو
میں تو میت زدہ گھر کی چوکھٹ ہوں
جس پہ کوئی ایک بھی رونے والا نہیں
جس کی خاطر ابھی سالہا سال تک
شہر میں کچھ بھی تو ہونے والا نہیں
تُو تو خود ایک دنیا ہے ہنستی ہوئی مسکراتی ہوئی
خوشبوئیں بانٹتی گیت گاتی ہوئی
اپنے منظر مری بدنصیبی کی پہلی نظر سے بچا
لوٹ جا، لوٹ جا
خواب زادی مِری شاہ زادی
ابھی تک جو میرے تمہارے صبح و شام کے درمیاں
جس قدر بھی ہے تھوڑی سی
اس جان پہچان سے لوٹ جا
شان سے لوٹ جا
خواب زادی
مرے شہرِ ویران سے لوٹ جا
-
فرحت عباس شاہ

Tum Kiya Jano


ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﻮ !
ﺭﻭﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮ !
ﺩﺭﺩ ﮐﮩﺎﮞ، ﮐﺐ ﮐﺲ ﻟﻤﺤﮯ
ﮐﺲ ﭘﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺍٓ ﮐﺮ
ﺍﭘﻨﺎ ﺍٓﭖ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ
ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﻮ !
ﺗﻢ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺑﺲ ﺧﺴﺘﮧ ﺣﺎﻝ ﭘﮧ
ﺭﻭﻧﺎ ﺩﮬﻮﻧﺎ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ !
ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﻮ
ﻻﻭﺍﺭﺙ ﺳﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﻮﺋﯽ
ﭼﮭﭗ ﭼﮭﭗ ﮐﺮ ﺟﺐ
ﺍﯾﮏ ﯾﺘﯿﻤﯽ ﮐﻮ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﮯ
ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﻮ
ﺩﺭﺩ ﺳﻮﺗﯿﻼ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮐﯿﺴﮯ
ﺑﺮﺗﺎﻭٔ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍُﺱ ﺳﮯ
ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﻮ
ﺳﺮﺩ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ
ﮐﻦ ﮐﻦ ﺑﮭﻮﻟﮯ ﺑﺴﺮﮮ ،
ﺑﭽﮭﮍﮮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻏﻢ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﻮ !
ﻏﻢ ﮐﯽ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﺮﯼ ﺍٓﻏﻮﺵ ﻣﯿﮟ
ﭘﻞ ﺑﮭﺮ ﺍٓﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ
ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﮭﺮ ﮐﮭﻮﻝ ﻧﮧ ﭘﺎﻧﺎ
ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﻮ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ !
ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﺗﻨﮩﺎ ﭘﯿﮍ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﻣﯿﮟ
ﭘﻞ ﺑﮭﺮ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﮭﻮ
ﺗﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﭘﮍﮮ ﻧﺎ ﺗﻢ ﮐﻮ !
ﮐﮭﻮﮐﮭﻠﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﭘﯿﮍ ﺳﮯ
ﺻﺤﺮﺍﻭٔﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻠﺴﺘﯽ ﺩﮬﻮﭖ ﺍﻭﺭ
ﻣﺮﺩﮦ ﻟُﻮ ﮐﺎ ﻗﺼﯿﺪﮦ ﺍٓ ﮐﮯ ﺳﻨﻮ
ﺗﻮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﭘﮍﮮ ﻧﺎ
ﺗﻢ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺑﺲ ﮨﺠﺮ ﺯﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﻣﺎﺗﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ
ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﻮ ﺩﺭﺩ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺗﻢ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺑﺲ ﺍﺷﮏ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺍٓﺗﮯ ﮨﯿﮟ !
ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﻮ ﺑﮯ ﺣﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ
ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ !
-
ﺯﯾﻦ ﺷﮑﯿﻞ

Fareeha Naqvi



لاہور پاکستان سے تعلق رکھنے والی خوبصورت و منفرد لب و لہجے کی شاعرہ ۔ لاہور شہر میں ہی تعلیم حاصل کی اور اکاونٹس میں ڈگری حاصل کی۔ انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاونٹنٹس آف پاکستان سے منسلک رہیں اور ایک ادارے میں بطور لیکچرار اپنے ملازمت کے فرائض انجام دیے۔ شاعری میں تیکھا اور بے باک انداز ہی ان کے کلام کو منفرد بناتا ہے اور ایسا لہجہ عموما کم شاعرات کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ ان کے کلام سے ایک نظم اور غزلوں سے چند اشعار احباب کی محبتوں کی ںذر


ہمارے کمرے میں پتیوں کی مہک نے
سگریٹ کے رقص کرتے دھوئیں سے مل کر ،
عجیب ماحول کر دیا ہے 
اور اس پہ اب یہ گھڑی کی ٹک ٹک نے،
دل اُداسی سے بھر دیا ہے
کسی زمانے میں ہم نے،
ناصر، فراز، محسن، جمال، ثروت کے شعر اپنی چہکتی دیوار پر لکھے تھے
اب اس میں سیلن کیوں آگئی ہے........ ؟
ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے ، اسی پہ کب سے، 
(وہ دائیں جانب، میں بائیں جانب.... )
نہ جانے کب سے دراز ہیں ہم ... !!!
میں اس سے شاید خفا نہیں ہوں ،
اُسے بھی کوئی گلہ نہیں ہے
مگر ہماری خمیدہ پشتیں جو پچھلی کتنی ہی ساعتوں سے
بس ایک دوجے کو تک رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھک گئی ہیں !
--------------
ہم اداسی کے اس دبستاں کا 
آخری مستند حوالہ ہیں 
اے مرے خواب چھیننے والے 
یہ مرا آخری اثاثہ ہیں
--------------
اس کی جانب سے بڑھا ایک قدم
میرے سو سال بڑھا دیتا ہے
--------------
تمہارے رنگ پهیکے پڑ گئے ناں ؟
مری آنکھوں کی ویرانی کے آگے
--------------
ہتھیلی سے ٹھنڈا دھواں اٹھ رہا ہے
یہی خواب ہر مرتبہ دیکھتی ہوں
--------------
روند پائے نہ دلائل میرے 
میرے دشمن بھی تھے قائل میرے
--------------

خالق بھی ہوں، رازق بھی ہوں،عورت ہوں میں لوگو...!
افسوس .......کہ تم نے..... مرا رتبہ نہیں سمجھا
--------------
ہمیں خبر ہے اِن آستینوں میں سانپ کتنے چُھپے ہوئے ہیں
ہم اپنے ہی دوستوں کی نظروں میں تِیر بن کر چبھے ہوئےہیں
--------------
دل میں سوئے سارے درد جگاتا ہے 
بن موسم کی بارش، ایسا نوحہ ہے
ناراضی میں ہجر کی دھمکی دیتی ہوں
سچ پوچھو تو سوچ کے بھی دل ڈرتا ہے
--------------
اندر ایسا حبس تھا میں نے کھول دیا دروازہ 
جس کو دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے
--------------
مِرے ہجر کے فیصلے سے ڈرو تم!
میں خود میں عجب حوصلہ دیکھتی ہوں
--------------
اِسے بهی چهوڑوں اُسے بهی چهوڑوں، تمہیں سبهی سے ہی مسئلہ ہے؟
مِری سمجھ سے تو بالا تر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پیار ہے یا معاہدہ ہے
ہم آج قوسِ قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں 
مجهے تو پہلے سے لگ رہا تها ، یہ آسمانوں کا سلسلہ ہے
--------------
عید کے دن یہ سوگوار آنکھیں
بد شگونی کا استعارہ ہیں
--------------
آئینہ دکھلاؤ تو ..... کردار کشی پر تل جائیں
کچھ لوگوں کے پاس یہی اک آخری حربہ ہوتا ہے
--------------
تمہیں پتا ہے؟ مرے ہاتھ کی لکیروں میں 
تمہارے نام کے سارے حروف بنتے ہیں
--------------
کل مجھے شاعروں کے جھرمٹ میں
چند شیطان بھی نظر آئے
آپ کو منہ نہیں لگایا تو
آپ بہتان پر اتر آئے
--------------
بهول جاتے ہیں ہمیشہ کہ علی کی بیٹی
غیض میں آئے تو ہل جائے خدائی صاحب
--------------
خون امڈ آیا عبارت میں، ورق چیخ اٹھے
میں نے وحشت میں ترے خط جو جلانا چاہے
نوچ ڈالوں گی اسے اب کے یہی سوچا ہے
گر مری آنکھ کوئی خواب سجانا چاہے
--------------
جن آنکھوں میں دیپ جلے تھے ان آنکھوں میں پانی ہے 
اک لمحے کے خواب کی قیمت ساری عمر چکانی ہے
--------------
لڑکھڑانا نہیں مجھے، پھر بھی 
تم مرا ہاتھ تھام کر رکھنا 
--------------
اس وطَن میں مقتدر ہونے کی پہلی شرط ہے
آدمی کے رُوپ میں شیطان ہونا چاہیئے
آپ جیسوں کو رعایا جھیلتی ہے کس طرح
آپ کو تو سوچ کر حیران ہونا چاہیئے
'نیم مُلّا خطرہ ایمان ' ہوتا ہے اگر
' پورا مُلّا غاصبِ ایما ن' ہونا چاہیئے
دل سےشرمندہ ہوں یہ اشعار جو میں نے کہے
آپ کے اعزاز میں دیوان ہونا چاہیئے
--------------
کبھی وہ وقت بھی آۓگا، تم بھی جانو گے
تُمہاری دید کسی کی حیات ہوتی ہے
تُو جب جہاں بھی میسر ہو بس اُسی پل میں
زمانے بھر کے دُکھوں سے نجات ہوتی ہے
--------------
زمانے اب تیرے مدِ مقابل 
کوئی کمزو سی عورت نہیں ہے
--------------
فریحہ نقوی

Hatheli Sy Thanda Dhuwan


ہتھیلی سے ٹھنڈا دھواں اٹھ رہا ہے
یہی خواب ہر مرتبہ دیکھتی ہوں

مِرے ہجر کے فیصلے سے ڈرو تم!
میں خود میں عجب حوصلہ دیکھتی ہوں


فریحہ نقوی

Tum maseeha


تم مسیحا ہو !
یعنی زمیں پر خدا ہو 
خدا تو...."سبھی کا" ہے 
پھر اس سے کیسے گلے؟
اور کیسی توقع ....؟
خدا سے بھلا کون کہتا ہے
" بس میرے ہو کر رہو 
صرف میری سنو! " .....


کیا عجب مخمصہ ہے، 
مسیحائی کو پرسنلائز کروں تو یہ جائز نہ ہوگا
سنو....!
اک جہاں کو تمہاری ضرورت ہے .......
بس تم کبھی بھی پلٹ کر نہ آنے کا وعدہ کرو 
اور
جاؤ....!!!!!

فریحہ نقوی

is watan K muqadar me

اس وطَن میں مقتدر ہونے کی پہلی شرط ہے
آدمی کے رُوپ میں شیطان ہونا چاہیئے
آپ جیسوں کو رعایا جھیلتی ہے کس طرح
آپ کو تو سوچ کر حیران ہونا چاہیئے

Usay Bhi CHoro Ussay Bhi Choro


اِسے بهی چهوڑوں اُسے بهی چهوڑوں، تمہیں سبهی سے ہی مسئلہ ہے؟
مِری سمجھ سے تو بالا تر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پیار ہے یا معاہدہ ہے

"جو تُو نہیں تهی، تو اور بهی تهے۔۔۔ جو تُو نہ ہوگی ، تو اور ہوں گے"
کسی کے دل کو جلا کے کہتے ہو ،" میری جاں ! یہ محاورہ ہے"

ہم آج قوسِ قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں 
مجهے تو پہلے سے لگ رہا تها ، یہ آسمانوں کا سلسلہ ہے

وہ اپنے اپنے تمام ساتهی، تمام محبوب ۔۔۔۔ لے کے آئیں
تُو میرے ہاتھوں میں ہاتھ دے دے، ہمیں بهی اذن مباہلہ ہے

ارے او جاؤ !! یُوں سر نہ کهاؤ !! ہمارا اس سے مقابلہ کیا؟
نہ وہ ذہین و فطین، یارو!! نہ وہ حسیں ہے، نہ شاعرہ ہے

Sooty sooty aankh Achanak


سوتے سوتے آنکھ اچانک کھل جاتی ہے
ایک ہی خدشہ نیند اڑا کر لے جاتا ہے
خواب میں اڑتا آتا ہے اک مبہم سایہ
مجھ سے تیرا ہاتھ چھڑا کر لے جاتا ہے.....


فریحہ نقوی

Amjad Sabri Tribute by Fareeha Naqvi


ملک کا چہرہ خون میں تر ہے
آپ کا مکر آسماں پر ہے
کوئی امید بھی نہیں ہم کو
آپ کا نصف نام ہی" شر" ہے


فریحہ نقوی

Rung Bat'ti Thi Woh


رنگ بانٹتی تھی وہ
ایسی روشنی تھی وہ

سرمئی گھٹاؤں سی
کیسے چھا گئی تھی وہ

مسئلہ یہی تھا بس
تم پہ مر مٹی تھی وہ

سیڑھیوں پہ بیٹھی تھی
راہ دیکھتی تھی وہ

خواب بچ گیا تھا پر 
ٹوٹ سی گئی تھی وہ

اس قدر سفید ہونٹ
جیسے مرچکی تھی وہ

آئنہ پٹخ دیا
خود سے ڈر گئی تھی وہ

دور تک سنائی دی
چیخ آخری تھی وہ

فریحہ نقوی

Hum udaasi Ka

ہم اداسی کے اس دبستاں کا
آخری ... مستند حوالہ ہیں!!

Meri Muhobat Jawan Rahay gai


”میری محبت جواں رہے گی“

میری محبت جواں رہے گی
مثالِ خورشید و ماہ و انجم 
میری محبت جواں رہے گی


عروسِ فطرت کے 
حُسنِ شاداب کی طرح جاوداں رہے گی
شعاعِ امید بن کے ہر وقت 
روح پر ضوفشاں رہے گی

شگفتہ و شادماں کرے گی
شگفتہ و شادماں رہے گی

”میری محبت جواں رہے گی“

”ن ۔ م ۔ راشد“

Tum Ne deikha hai Mujhay


تم نے دیکھا ہے مجھے

تم نے مرجھائے ہوئے پھول کبھی دیکھے ہیں؟
دل کی قبروں پہ پڑے 
ہجر کی لاش کی آنکھوں پہ دھرے
تم نے اکتائے ہوئے خواب کبھی دیکھے ہیں؟
درد کی پلکوں سے لپٹے ہوئے
گھبرائے ہوئے
تم نے بے چین دعائیں کبھی دیکھی ہیں؟
محبت کے کناروں پہ بھٹکتی پھرتی
تم نے دیکھا ہے مجھے؟
کیا کبھی دیکھا ہے مجھے؟


فرحت عباس شاہ

Yehi gar zid tumhari hai

یہی گر ضد تمہاری ہے
چلو ہم بھول جاتے ہیں
سبھی وعدے، سبھی قسمیں
محبت کی سبھی رسمیں
نہیں منظور جو تم کو
کریں رنجور جو تم کو
تمہاری شادمانی ہی، عزیز از جان ہے جب تو
تمہیں پھر ٹوکنا کیسا؟
زیاں، سود کی بابت، بھلا پھر سوچنا کیسا
چلو ہم بھول جاتے ہیں
محبت کی ریاضت میں
وفاؤں کی مسافت میں
قدم کس کے کہاں بہکے، ہوئی کس سے کہاں لرزش
بسا دی جس نے اک پل میں، ہماری آنکھوں میں بارش
کہ جس کی تیز بوندوں سے
کسی تیزاب کی صورت
نشانِ منزلِ دل ہی، جلا ڈالا مٹا ڈالا
مگر جاناں
کہاں آسان ہوتا ہےِ؟
جگر کا خون اشکوں میں، بدلنا اور بہا دینا
خس و خاشاک چن چن کر
گھروندہ اک بنانا اور اسی کو پھر جلا دینا
جواں سپنوں کی لاشوں کو
درونِ جاں چھپا کر مسکرا دینا
خزائیں پالنا خود میں، بہاریں بانٹے پھرنا
کہاں آسان ہوتا ہے؟
بہت ممکن ہے ہم بھی ہار ہی جائیں
جواں ہے ضبط جو اب تک
مقابل غم کے آئیں۔۔۔۔ اور ڈھئے جائیں
اور اس میں‌ بھی تعجب کیا؟
تمہارے لوٹ آنے کی بچی ہو آس جوکوئی
نوائے بےزباں بن کر
سسک کر پھر سے اٹھے اور تم تک بھی پہنچ جائے
سو تم سے یہ گزارش ہے
تب اک احسان تم کرنا
پلٹ کر دیکھنا یوں سرد نظروں سے
کہ جو بھی آس زندہ ہو۔۔۔
اسے یکسر مٹا دینا
ہمیں پتھر بنا دینا —

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...