Saturday, 16 January 2016

Mujhay Dukh Ye hai

مجھے دکھ یہ ہے کہ بہار میں بھی طیور بے پرو بال ہیں
میرے ہمسفر! نہ ملول ہو، یہ ملال میرے ملال ہیں
-
میری بے کلی سے خفا نہ ہو، میری جستجو کا بھرم نہ کھو
تجھے اک جواب وبال ہے. میرے لب پہ لاکھ سوال ہیں
-
وہ تھی اک لکیر سی آبجو، یہ ہے چار سو کی فضائے ہو
وہ گھڑی تھی تیرے وصال کی، یہ فراق کے مہ و سال ہیں
-
یہ عجیب حسن و قیاس ہے، کہ جو دور ہے وہی پاس ہے
یہ تصورات کے واہمے، میرے دشتِ غم کے غزال ہیں
-
یہ جو عرصہ گاہِ خیال ہے، تیرا فن ہے تیرا جمال ہے 
میرے شعر ہوں کہ ادب میرا، یہ سبھی تیرے خدوخال ہیں
-
یہ عجب طرح کا تضاد ہے، یہ دل و نظر کا فساد ہے
میرے تجربے ہیں کمال پر، میرے درد رو بہ زوال ہیں
-
احمد ندیم قاسمی
-
Mujy dukh Ye hai Keh bahaar mein bhi taiuur Be parr-o-Baal hain
Mery Humsafar Na malool Ho, Ye malaal mery malaal hain
-
Meri Be-kali sy Khafa Na ho, Meri justju Ka bhram Na Kho
Tujhy aik jawab wabaal hai, Mery lab py Lakh Sawaal hain
-
Woh Thi ik Lakeer C Aab-ju, Ye Bechaar su Ki Fiza-e-ho
Woh gharii THi Tery wisaal ki, Ye Firaaq K Mah-o-saal hain
-
Ye Ajeeb Husn-o-Qayaas hai, K Jo door hai Wohi paas hai
Ye Tasawarat K wahmay, Mery Dashat-e-gham K ghazaal hain
-
Ye Jo Arsa gah-e-Khayal hai, Ter Funn hai Tera Jamaal hai
Mery Sheir Hoon K Adab Mera, Ye sabhi Tery Khad-o-Khaal hai
-
Ye ajeeb Tarah Ka Tazaad hai, Ye dil-o-Nzr Ka Fasaad hai
Mery Tajarbay hain kamaal par, Mery dard rubah zawaal hain...!!
-
Ahmad Nadeed Qasmi

Jalti Dhoop sy haar gaya tha

جلتی دھوپ سے ہار گیا تھا
لیکن سایہ بول رہا تھا
-
سانس کے پہلے بندھن سے ہی
میں نے تم کو مان لیا تھا
-
تیرے ہجر میں شام سویرے
جیتے جی میں آپ مرا تھا
-
میٹھے جھرنوں سے یاد آیا
تیرے ہونٹ سے شہد پیا تھا
-
سب دیواریں گریہ کناں ہیں
آخر دل میں کون بسا تھا
-
تو نے اچھّا یاد دلایا
میں تو خود کو بھول گیا تھا
-
اپنی خواہش ہے اپنا روگ
میں بھی اپنی آگ جلا تھا
-
ریت کے ذرّے چنتے رہنا
اک روگی نے مجھ سے کہا تھا
-
تیرے وصل میں ، میں نے پیارے
تنہائی کا زہر پیا تھا
-
تم سے بچھڑ کر احساس ہوا
میں تو رستہ بھول گیا تھا
-
میں نے تیری آنکھوں میں تو
صرف اپنا چہرہ دیکھا تھا
-
تیرا میرا میل نہیں ہے
میں ماٹی اور تو سونا تھا
-
سوکھی گھاس پہ بیٹھ کے اک دن
ایک برس کو میں رویا تھا
-
تیرے لہجے کی شیرینی سے
اکثر میرا دل جلتا تھا
-
توت کی میٹھی چھاؤں میں
تیری سانس کا لمس پیا تھا
-
آئینہ دیکھا یاد آیا
تم نے مجھ سے پیار کیا تھا
-
بانجھ شجر سے آس لگائے
اتنی دیر سے کون کھڑا تھا
-
تم کو پیارے ہوش نہیں ہے
اُس نے پیار سے جان کہا تھا
-
رات کی گہری تاریکی میں
تیرے حسن کا جام پیا تھا
-
اپنی دُھن میں کون نہیں ہے
خاور نے خود کو پوجا تھا

Tumhary Hijr me Khud Ko guzarta hua me

قدم قدم پہ جہنم سہارتا ہوا میں
تمہارے ہجر سے خود کو گزارتا ہوا میں
-
یہ پور پور اذیت میں ڈالتے ہوئے تم
یہ سانس سانس محبت پکارتا ہوا میں
-
پھر ایک رات اذیت سے مر گیا تھا کہیں
تمہارے عشق کو اندر سے مارتا ہوا میں
-
عجب نہیں ہے کسی روز قتل ہوجاؤں
تمہاری جان کا صدقہ اتارتا ہوا میں
-
معاف کرنا ترا ساتھ دے نہیں پایا
پلٹ رہا ہوں محبت میں ہارتا ہوا میں
-
میثم علی آغا
-
Qadam Qadam py Jahannum Saharta Hua Me
Tumharey Hijr sy Khud Ko Guzarta Hua Me
-
Yeh Poor Poor Aziyyat Me Dalhtay Huay Tum
Yeh Sans Sans Muhobbat Pukarta Hua Me
-
Phir Aik Rat Aziyat sy Mar gaya Tha Kahein
Tumhare IshQ Ko Andar sy Marta Hua Me
-
Ajab Nahi Hai Kisi Roz Qatal Ho Ja'on
Tumhari Jan Ka SadQa Utarta Hua Me
-
Maaf Karna Tera saath day nahi paya
Palat raha hoon Muhobat me haarta hua me

Ab K saal Kuch aisa karna

اب کے سال کچھ ایسا کرنا۔۔
اپنے پچھلے بارہ ماہ کے۔۔
دکھ سکھ کا اندازہ کرنا
بسری یادیں تازہ کرنا۔۔
سادہ سا اک کاغذ لے کر
پھر اس بیتے اک اک پل کا
اپنے گزرے اک اک کل کا۔۔
اک اک موڑ احاطہ کرنا
سارے دوست اکٹھے کرنا
ساری صبحیں حاضر رکھنا
ساری شامیں پاس بلانا۔۔
اور علاوہ ان کے دیکھو
سارے موسم دھیان میں رکھنا
اک اک یاد گمان میں رکھنا
پھر محتاط قیاس لگانا
گر تو خوشیاں بڑھ جاتی ہیں
تو پھر تم کو میری طرف سے۔۔۔۔۔
آنے والا سال مبارک۔۔!!!


اور اگر غم بڑھ جائیں تو
مت بیکار تکلف کرنا۔۔
دیکھو پھر تم ایسا کرنا۔۔!
میری ساری خوشیاں تم لے لینا
مجھ کو اپنے غم دے دینا۔۔۔
اب کے سال کچھ ایسا کرنا۔۔!!
۔۔۔

Abhi To saal guzara tha

بہت گم صم سے بیٹھے تھے
کسی تصویر جیسے تھے
اگر میں سچ کہوں جاناں
مری تعبیر جیسے تھے
جہاں پر تم نے کاغذ کی بہت چھوٹی سی ناؤ کو__
بڑی چاہت سے، ہمت سے
سمندر میں اتارا تھا
بہت دلکش نظارہ تھا
تمہارے حوصلے پہ کسقدر حیران یہ لہریں
تمہیں حیرت سے تکتیں تھیں
بپھرتی تھیں ، مچلتی تھیں
مگر تم ان سے بےپرواہ
بس اپنی سوچ میں گم تھے
ہماری آنکھ میں تم تھے
تمہیں کچھ یاد ہے
ساحل پے ہم نے گیت
گایا تھا__
تمہیں دل میں بسایا تھا
جہاں ہم تم ملے تھے
اور پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں
کئی صدیاں گزاری تھیں
مری سانسیں تمہاری تھیں
ابھی تو سال گزرا ہے
کہ جب تم میرے شانوں پر اچانک ہاتھ رکھ کر
چپکے چپکے مجھ سے کہتی تھیں
محبت تو عبادت ہے ، محبت تو سعادت ہے
محبت فیض کا چشمہ جسے دن رات بہنا ہے
ہمیں اک ساتھ رہنا ہے، یہ دکھ سکھ ساتھ سہنا ہے__
ابھی کچھ دیر ہی پہلے
تمہاری آنکھ کے جھل مل ستارے
ہم سے کہتے تھے
ہمارا نام لیتے تھے ، ہمیں پیغام دیتے تھے
تمہارا ساتھ نہ چھوٹے ، ہمارا خواب نہ ٹوٹے
مگر یہ سال کیسا ہے
کسی نے بھی نہیں پوچھا
ہمارا حال کیسا ہے
وہی ساحل ، وہی موسم ، وہی رستے، وہی قصّے__
وہی سب کچھ تو ہے جاناں
مگر اب تم نہیں میرے
بس اک احساس رہتا ہے
گیا وقت لمحے لمحے آنسوؤں کے ساتھ بہتا ہے
ہمیں اک بات کہتا ہے
تمہارا ساتھ کیوں چھوٹا ؟
ہمارا خواب کیوں ٹوٹا ؟
ابھی تو سال گزرا تھا ...!!

Hum aik dosy sy miltay to

ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!
زمیں پہ آگ تھی تارے لہُو میں لتھڑے تھے
ہَوا کے ہاتھ میں خنجر تھا اور پُھولوں کی
پھٹی پھٹی ہُوئی آنکھوں میں ایک دہشت تھی
ارادے ٹوٹتے جاتے تھے اور اُمیدیں
حصارِ دشت میں ‘ بکھری تھیں اِس طرح‘ جیسے
نشان‘ بھٹکے ہُوئے قافلوں کے رہ جائیں
ہمارے پاس سے لمحے گَزرتے جاتے تھے
کبھی یقین کی صورت ‘ کبھی گُماں کی طرح
اُبھرتا‘ ڈوبتا جاتا تھا وسوسوں میں دِل
ہوائے تند میں کشتی کے بادباں کی طرح
عجیب خوف کا منظر ہمارے دھیان میں تھا
سروں پہ دُھوپ تھی اور مہر سائبان میں تھا
چراغ بُجھتے تھے لیکن دُھواں نہ دیتے تھے
نہیں تھی رات مگر رَت جگا مکان میں تھا!
حروف بھیگے ہُوئے کاغذوں پہ پھیلے تھے
تھا اپنا ذکر‘ مگر اجنبی زبان میں تھا
نظر پہ دُھند کا پہرا تھا اور آئینہ
کسی کے عکسِ فسوں ساز کے گُمان میں تھا
ہم ایک راہ پہ چلتے تو کس طرح چلتے!
تری زمیں کسی اور ہی مدار میں تھی
مِرا ستارا کسی اور آسمان میں تھا
ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!
سَمے کا تیز سمندر جو درمیان میں تھا

Ab Kon Kahay tum sy

ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﮨﺮ ﺧﻮﺍﺏِ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ
ﺗﻌﺒﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ 
ﺳﺐ ﺭﻧﮓ ﻣﯿﺴﺮ ﮨﯿﮟ 
ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﺟﻮﮔﯽ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ 
ﺟﺎﮔﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ 
ﮨﺮ ﺯﻟﻒ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ 
ﺯﻧﺠﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ 
ﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺟﮍﻧﮯ ﻣﯿﮟ ،،، ﺗﺎﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ

Tumhein Mene Bataya tha

تمہیں میں نے بتایا تھا...
شکستہ پا نہیں، دیکھو!
شکستہ روح بھی ہوں میں
مرے مفلوج ہاتھوں کو حیاتِ نو کا اب کوئی اشارہ مت دکھا دینا،
مری بےنور آنکھوں کو نویدِ خوابِ الفت مت سنا دینا،
بتایا تھا، کہ مدت سے ...
مرے معذور پیروں نے مجھے چلنے، کسی کے ساتھ چلنے کی
اجازت تک نہیں دی ہے.. !
مرے ٹوٹے بدن میں زندگی کا ایک بھی ذرہ نہیں باقی
تمہیں تو سب بتایا تھا !!
تمہیں ضد تھی،
تمہیں ضد تھی مرے پیروں تلے پلکیں بچھاؤ گے
تمہیں ضد تھی کہ تم میری ہتھیلی پر دھڑکتے دل کو رکھو گے
تمہیں ضد تھی کہ بجھتی روح پر تم زندگی کی آگ رکھو گے....
تمہاری ضد کے آگے ہار مانی،
پھر سے اک دم توڑتی امید کے دھاگوں سے زخموں کو سیا،
خود کو تمہں سونپا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر جو اب کے ٹوٹا ہے،
مرے ٹکڑوں کے ٹکڑے ہیں
یہ اب کیونکر جڑیں گے............!!
-
فریحہ نقوی

Ajnabi aao

اجنبی آؤ
اجنبی آؤ
دیکھو، امنگوں کی نوخیز کلیاں
جو مرجھا رہی ہیں
تمہارے لیے وقت ۔۔۔ چنچل پرندہ
مرے سانس پتھر تلے دب چکے ہیں
مری عمر کچھ کٹ چکی ہے
جو باقی ہے ۔۔۔ اک کرب میں کٹ رہی ہے
اگر اجنبی تم نہ آؤ
تو پیغام بھیجو
اگر کوئی چنچل پرندہ ملے ۔۔۔ وقت کا
اس کی گردن میں باندھو کوئی سبز کاغذ
کوئی سبز کاغذ کہ جس پر لکھو ۔۔۔ اپنے ہاتھوں
انوکھی، پر اسرار، سب رنگ تحریر
پھر وہ پرندہ مری سمت بھیجو
تو پھر اجنبی، وہ پرندہ
(اگر ہو سکے تو
مرے سانس پتھر تلے سے نکالے
مرا کرب چکھے
وہ کاغذ
تمہاری پراسرار، سب رنگ تحریر والا
محبت کا تعویذ کر کے
مری سُونی گردن میں ڈالے
-
ثمینہ راجہ

Tumhary saath ne Janaan

تمہارے ساتھ نے جاناں
مجھے 'تخلیق' بخشی تھی
میرے الفاظ کو ترتیب
تخیّل کو بہت سے خواب
-
کہ میں تو کشف سے، پل بھر میں واقف ہو گئی جیسے
میں نے وجدان پایا تھا،
بہت سے رنگ میری سوچ میں یوں بھر گئے تھے کہ... ستارے
پھلجڑی
جگنو
بہاریں، سب لگے پھیکے
-
مگر جب سے گئے ہو تم
مجھے کچھ ایسا لگتا ہے
کہ جیسے دوپہر میں گہن لگ جاتا ہے سورج کو
اچانک رات ہوتی ہے
پرندے سہم جاتے ہیں
کچھ ایسا خود سے کہتے ہیں
"ابھی تو دانہ چگنا تھا"
"ابھی تو گھر بنانا تھا"
"یہ یکدم شام کیوں آئی؟"
-
کسی سہمے ہوئے طائر کی مانند میں بھی بیٹھی ہوں... کہاں جائوں؟؟؟
میں کیا سوچوں؟؟؟
-
تخیّل بانجھ ہو جس کا
بھلا وہ کس طرح سوچے؟؟؟
-
عبرین خان

Mujhy Khaber hai

مجھے خبر ہے کہ میرے گھر سے گُزرنے والی ہوا کا رستہ
تہمارے گھر تک نہیں گیا ہے
سلام میرا تمہارے کانوں سے نارسا ہے
میں جانتا ہوں یہ بچپنا ہے
مگر حقیقت کو جان کر بھی نہ جاننے میں عجب مزہ ہے
ہوا سے میں نے یہ پھر کہا ہے
گزر رہے ہیں تمہاری یادوں کے دم سے ہی صبح و شام ، کہنا
ہوائو اُس کی گلی سے گُزرو تو اُس کو میرا سلام کہنا
تمہارے گھر کا کِسے پتا ہے ، ہوا کے رُخ کی کِسے خبر ہے۔۔۔
-
امجد اسلام امجد

Kaho Na Yaad Karty Ho

کہو نا یاد کرتے ہو
انا کے دیوتا 
اچھا چلو مرضی تمہاری پر
میں اتنا جانتا تو ہوں
کہ جب بھی شام ڈھلتی ہے 
تو لمبی رات کی کجلائی آنکھوں میں
ستارے جھلملاتے ہیں
تمہیں میں اس گھڑی پھر چاند کو تکتے ہوئے
شدت سے اتنا یاد آتا ہوں کہ جتنی شدتوں سے
تم خموشی کی ردا کو اوڑھ کر یہ کہہ نہیں پاتے
کہ ہاں! تم یاد آتے ہو!
چلو مانا انائیں اہم ہوتی ہیں 
مگر ان سے کہیں زیادہ محبت اہم ہوتی ہے
چلو مانا تمہیں عادت نہیں اظہار کی،
اقرار کی، 
اور تم بھی محسن نقوی کی وہ نظم تھی نا جو 
"چلو چھوڑو" کی بس ان چند سطروں سے متاثر ہو 
کہ جو کچھ اس طرح سے تھیں
"چلو چھوڑو! محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا"
مگر اِس نظم میں پنہاں 
جو ہے اک بے بسی کی اوٹ میں ٹوٹا، 
تھکا ہارا بڑا ہی مضطرب اور طنزیہ لہجہ
اسے تم نے کبھی محسوس کرنے کی سعی کی
نا مرے جذباب کو سمجھا
مجھے معلوم ہے تم کو محبت ہے مگر تم کہہ نہیں سکتے
انا کے دیوتا! 
میں جانتا ہوں ان کہی باتیں
مگر چھوٹی سی یہ خواہش 
مرے سینے کو تڑپائے ہوئے رکھتی ہے کہ تم بھی
کبھی اپنی انا کا بت گراؤ
وہ سبھی باتیں ذرا شیریں سے لہجے میں سناؤ
وہ سبھی باتیں جنھیں تم کہہ نہیں پائے
جنھیں تم کہہ نہیں سکتے
مجھے معلوم ہے کہ میں تمہیں بے چینیوں کی شدتوں میں 
حد سے زیادہ یاد آتا ہوں
مگر تم لب ہلاؤ تو
مری ان رتجگوں کی مٹھیوں میں قید آنکھوں میں 
تم اپنی ڈال کر آنکھیں ذرا اک بار دیکھو تو!!
کہو کس واسطے جذبوں کا اپنے خون کرتے ہو
بھلا کیوں روندتے ہو پاؤں میں ایسے گُلِ خوابِ محبت کو
تمہیں ملتا ہی کیا ہے درد سے مجھ کو سدا منسوب رکھنے میں
انا کو اوڑھ کر تم کس لیے یہ خواہشیں اور حسرتیں برباد کرتے ہو
کہو نا یاد کرتے ہو
-
زین شکیل

Mery Mah O Saal

میرے ماہ.و.سال کے بیچ میں
کوئی ایسا لمحہ گیا نہیں
تیرا نام میں نے لیا نہیں
تجهے یاد میں نے کیا نہیں
تیرا کونسا وہ مدار تها
جہاں گردشیں میری رک گئیں
تیرا کونسا وہ خیال تها
جسے دهیان میں نے دیا نہیں
یہاں ہر قدم پہ ہیں حادثے
یہ خیال ہی دل کو تهکا گیا
یہ سفر کہ سیرت_طویل ہے.
ابهی ایک قدم تک اٹها نہیں
یہ میری انا کی ہے سرکشی
جو وصف ایسے سکها گئی
میں دریا ہوں....جو گرا نہیں
وہ پہاڑ ہوں.....جو ہلا نہیں
کوئی ایک آنسو ایسا دے
در.و.بام اپنے سجا لوں میں
تجهے کیا خبر میری راہ میں
کوئی تارا، جگنو، دیا نہیں
کوئی بے قراری سی آج بهی
میرے دل میں خار ہے کهینچتی
کوئی درد تها....جو دبا نہیں
کوئی آنسو تها.....جو بہا نہیں
اسے بعد برسوں کے سوچ کے
یونہی ایک لمحے کو کیا ہوا.
کوئی سانس تهی.... جو چلی نہیں
کوئی ضبط ہے....جو ہوا نہیں

Tu Kahan Chali gayi thi



تو کہاں چلی گئی تھی
تیرا بے قرار انشاء
تیری جستجو میں حیراں
تیری یاد میں سلگتا
کبھی بستیوں بنوں میں
کبھی سوۓ کوہ صحرا
کبھی سورشوں میں کھویا
کبھی بے کس تنہا
لیے دید کی تمنا
بنا آرزو سراپا
تجھے ہر جگہ پکارا
تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ ہارا
تو کہ روح زندگی تھی
تو کہاں چلی گئی تھی
-
میری حیرتوں کا روما
میری حسرتوں کی دلی
میری وحشتوں کا صحرا
میرا بلدۂِ کراچی
مجھے اور کون جانے
یہی دے تو دے گواہی
کہ حسین صورتوں سے 
یہاں ہر گلی بھری تھی
مگر ایک یہ دیوانہ
تیرا وحشیِ یگانہ
جسے زندگی گوارا
کبھی چھوڑ کر گیا ہے
تیرا آستاں پرانا
جہاں اوائل ِ جوانی
سرِ محفل ِ شاہانہ
کبھی تو اسے ملی تھی
تو کہاں چلی گئی تھی
-
کبھی ساونوں سے پوچھو
کبھی بادلوں سے پوچھو
تھا جو حال موسموں کا
تھا جو رنگ وحشتوں کا
کبھی یاس کے جلو میں
کبھی آس کے جلو میں
نہ وہ محفل ِ شاہانہ
نہ کہیں کا آنا جانا
ے سات ساگروں کے
جہاں لوگ ہیں انوکھے
ہمیں جی سے یوں بسارا
ہمیں یاد سے اتارا
یہاں لوٹ کر بھی جانی
نہ ملن ہوا گوارا
یہ جو ماہ و سال گزرے
یہ عجیب حال گزرے
جھے یاد تو دلائیں 
تمہیں یاد بھی تو آئیں
کبھی عہد جو کیے تھے
ہمیں قول جو دیے تھے
کبھی کانپتے لبوں سے
کبھی اشک کی زباں میں
کبھی گنجَ گلستان میں
کبھی کوئے رہرواں میں
کسی دوست کے مکاں میں
تیری زندگی سلامت مگر ایک روز جانی
تیرا ساتھ چھوڑ دے گی
تیری بے آماں جوانی
تیرے گیسوؤں کی چاندی
با زبانِ بے زبانی
جو سنے گی کہانی
تو یہ بے وفا زمانہ
تیر ے جی پہ بار ہوگا
نہ دلون کی قسمتوں پر
تجھے اختیار ہوگا
نہ جوان محفلوں میں
تیرا انتظار ہوگا
نہ کوی وفا کو خواہاں
نہ گلہ گزار ہوگا


مگر ایک یہ دوانہ یہ پرانا پیت روگی
تیرے نام پہ بانا ہے
جو کوئی فقیر جوگی
تجھے ڈھوڈھتا ملے گا
تجھے جستجو جو ہو گی
-
کبھی بستیوں، بنوں میں
کبھی سوئے کوہ و صحرا
کبھی شور شوں میں کھویا
کبھی بے کس و تنہا
لیے دید کی تمنا
بنا آرزو سراپا
تجھے ہر جگہ پکارا
تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ ہارا
تُو کہ روحِ زندگی تھی
تُو کہاں چلی گئی تھی
غم عاشقی نبھاتا
یا اداس گیت گاتا
میری شاعری کی رانی
میری حاصلِ جوانی
میری جانِ زندگانی
تو کہاں چلی گئی تھی
تُو کہاں چلی گئی تھی
-
ابن انشا

Ye Duniya Khab ka dariya nahi Larki

یہ دنیا خواب کا دریا نہیں لڑکی
جسے تعبیر پانے کی ہوس میں پار کر لو تم
یہ دنیا اک تماشائی
مسلسل آبلہ پائی
کہ جس پر چلتے پاؤں درد کی جنت کو چھوتے ہیں
یقین و بے یقینی ہی کچل دیتی ہے سر ان کے
یہاں پر آنکھ میں جن کی بہت سے خواب ہوتے ہیں
محبت درد دیتی ہے تو نفرت سیج ہے ایسی
کہ جس کی رہ گزر میں ہر قدم پر خار ہوتے ہیں
مگر تم حوصلہ رکھنا
وفا کا سلسلہ رکھنا
یہ آنکھیں خواب کا گھر ہیں
مگر تم خواب مت بُننا
کہ سارے خواب آنکھوں میں
ہی سانسیں توڑ جاتے ہیں
انہیں تعبیر ملنے کی کوئی امید مت رکھنا
انہیں خوابوں کی ہم نے کرچیاں پلکوں سے چننی ہیں
سنو لڑکی!
خوشی بانٹو
ہنسی کے رنگ بکھراؤ
یہ دنیا خواب کا دریا نہیں جس کو
کسی کچے گھڑے پر پار کر پاؤ

Naarzgi

اس کی ناراضگی دور کرنے کے لئے
ﺳﻨﺎ ﮬﮯ
ﺭﻭﭨﮭﻨﺎ ﺑﮭﯽ
ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺭﺳﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮬﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮬﮯ
ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﺁﺟﮑﻞ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮬﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺳﻤﺠﮭﻮﮞ ؟
ﻣﮕﺮ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺭﻭﭨﮭﻨﺎ
ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮬﻮ ﺟﺎﻧﺎ
ﺑﺠﺎ ﻟﯿﮑﻦ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﻮ ﺣﻖ ﺩﻭ
ﭘﻮﭼﮫ ﻟﻮﮞ
ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﮐﯿﺴﯽ ؟
ﺟﮩﺎ ﮞ ﺗﮏ ﯾﺎﺩ ﮬﮯ ﻣﺠﮭﮑﻮ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﺷﺎﺋﺪ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ
ﺭﺳﻢ ﺍﻟﻔﺖ ﭘﺮ
ﯾﺎ ﻭﻋﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺗﻘﺪﺱ ﭘﺮ
ﮐﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺤﺚ ﮬﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﻨﺎﻧﮯ ﺭﻭﭨﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ
ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮑﺮﺍﺭ ﮬﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺩ ﺳﻮﭺ ﻟﻮ
ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﺑﯿﮑﺎﺭ ﮬﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮨﯿﮟ ,.
ﺍﮎ ﺍﯾﺴﮯ
ﭼﻮﮌﮮ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﮯ
ﮐﮧ
ﺟﺲ ﮐﮯ ﺩﻭ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮨﯿﮟ
ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﺭﻭﺍﮞ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺩﻭﺭ ﮬﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺩﻭﺭﯾﺎﮞ ﮨﯿﮟ
ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ
ﭘﮭﺮ ﺭﻭﭨﮭﻨﺎ ﮐﯿﺴﺎ
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺳﻤﺠﮭﻮﮞ

Barish

میرے آنگن میں بادل ٹپکتے رھے 
میں نے بارش کو لبیک کہنے میں تاخیر کی 
دو قدم چل کے بوندیں نہیں چھو سکا 
میری پوریں کہیں اور مصروف تھیں 
میرے گھر میں لگی بیریوں نے پکارا مجھے 
اور مرے کان ھیڈ فون میں شور کرتی 
صداوں کے ملبے کے نیچے کہیں دفن تھے 
بیریوں کی محبت سے لبریز باتیں بھی ضائع گیئں
میرے کمرے کے باھر 
برابر کی کھڑکی سے سورج مجھے 
روز ملنے کو آتا رھا 
میں نہیں اٹھ سکا 
میں تو مصروف تھا 
فیس بک کی یہ خود ساختہ اور لذت بھری قید کیوں چھوڑتا! 
بارشوں سے ضروری وہ پیغام تھے 
وہ جو تھے ھی نہیں!
-
علی زریون

Suno Aay Kanch Ki Guriya

سنو!
اے کانچ کی گڑیا
تمہیں چھونے کی خواہش سے بھی ڈرتا ہوں
کہیں پر آنچ نہ آئے
کہیں کچھ ٹوٹ نہ جائے
سنو اے ماہِ رُو لڑکی
تمہیں میں نے بتانا ہے
تمہاری صندلیں خوشبو
مجھے محصور رکھتی ہے
محبت کے سحِر میں
بتا ؤ تو !
بھلا تم کون ہو ؟
اے ماہ وش
اے ماہ پارہ
چاندنی جیسی
تمہارے دور جانے سے
نہ جانے کیوں مری اب سانس رُکتی ہے
مجھے کیوں موت کا اِحساس ہوتا ہے
سنو! 
اے دلربا لڑکی
مجھے دل میں جگہ دے دو
میں صدیوں سے اکیلا ہوں
تری آنکھوں میں رہنا ہے
مرے سارے ہی لفظوں کو
فقط اپنی زباں دو
مری تو زندگی ڈوبی ہوئی ہے گھپ اندھیروں میں
سنو تم نور! اس میں نور بھر دو نا
مجھےسب سے چھپا لو نا
مجھے اپنا بنا لو نا
کبھی پیڑوں سے ملنے جاؤ تو
جس پیڑ پر تم سب زیادہ
سبز پتے دیکھ لو تو اس پہ اک پتھر سے
پہلے ایک میرا اور تمہارا نام لکھنا
اور دونوں نام لکھ کر یہ بھی لکھ دینا
ہوا، آندھی کوئی طوفان
یا غم کا کوئی صحرا 
کسی بھی راہ میں آئے
کوئی بھی رُت ہمیں اک دوسرے سے
یوں جدا اَب کر نہیں سکتی
محبت مر نہیں سکتی
-
زین شکیل

15 January

پندرہ جنوری
-
جنوریوں کی کتنی شامیں آئیں
آ کر بیت گئیں
دِل نے کوئی آہٹ، کوئی دستک بھی محسوس نہ کی
لیکن سات برس کے بعد
آج کی شام میں
جانے کیا ہے
دائیں آنکھ کا دایاں کونہ بھیگ گیا ہے
-
نوشی گیلانی

aik beti ka apny bablul K naam Khat

بابا جی
آپ کا خطّ ملا
یوں لگا میرے گھر سے کوئی آ گیا
آپ کا خط میرے ہاتھ میں ہے
ایسا لگ رہا ہے آپ میرا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں
چھوڑنا نہیں
-
دو دن سے یہاں بارشیں ہو رہی ہیں
اور میں گھر میں بیٹھی ہوئی ہوں
-
اپنے گھر میں بارش میں کتنا نہاتی تھی
امّا ڈانٹتی تھی، مجھے اور مزہ آتا تھا
آسمان کی طرف دیکھ کے کہتی تھی
الله صاحب، اور بارش بھیجو
-
یاد ہے ابّا جی، ایک دن بہت بارش ہو رہی تھی
آپ کو مجھے سکول چھوڑنا تھا
آپ کے سائکل کے پہیے کی ہوا نکل گئی
وہ میں نے نکالی تھی
سکول نہیں گئی 
اور بارش میں نہاتی رہی 
-
بھائی ہمیشہ مجھ سے لڑ کر
مجھے گھر میں لے جاتا تھا
اور میں روتی ہوئی آ کر آپ سے لپٹ جایا کرتی تھی
-
بابا جی
یہاں کوئی مجھ سے لڑتا ہی نہیں
بہت خاموشی ہے
میں تو آپ کی لاڈلی تھی
پھر مجھے اتنی دور کیوں بھیج دیا
-
امّا کیسی ہے
کس کو ڈانٹی ہے
چڑیوں سے باتیں کون کرتا ہے
بکریوں کو چارا کون ڈالتا ہے
تمہاری پگڑی میں کلف کون لگاتا ہے
بہت کچھ لکھنا چاہتی ہوں بابو جی
لکھا نہیں جا رہا
تم سب بہت یاد آتے ہو
تمہاری لاڈلی
-
بابا جی،
ناراض ہو؟
اگر نہیں ہو تو اپنی لاڈلی کو خطّ کیوں نہیں لکھا
بہت ساری باتیں تمہیں بتانی ہیں
-
امّا سے کہنا اپنی ہری چادر تلاش کرنا چھوڑ دے
وہ میں نے چپکے سے اپنے بکسے میں رکھ لی
جب امّا کی یاد آتی ہے،
میں وہ چادر سونگھ لیتی ہوں
اور یوں لگتا ہے میں امّا کی بانہوں میں ہوں
-
تم نے جو قلم بھائی کے پاس ہونے پہ اس کو دیا تھا
وہ بھی میں لے آئی
اب بھائی قلم ڈھونڈے گا تو مجھے یاد کرے گا
-
تمہاری ٹوٹی ہوئی عینک بھی اپنے ساتھ لے آئی ہوں
سارا دن شیشے جوڑنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں
اور تم سامنے بیٹھے رہتے ہو
بابا جی انہی باتوں سے تو میرا دل کٹ جاتا ہے
-
بابا جی کل رات میں نے اک خواب دیکھا
تم، امّا، بھائی صحن میں بیٹھے بہت خوش نظر آئے
مگر میں اداس ہو گئی
آم کے پیڑ پہ جو میرا جھولا تھا ناں وہ نظر نہیں آیا
تم لوگوں نے ایسا کیوں کیا
اسے ڈلوا دو
میں اب بھی اسی جھولے پر بیٹھی ہوں
اور کچے آم توڑ کے کھانے لگتی ہوں
تم نے اچھا نہیں کیا بابا جی
تمہاری لاڈلی

Tum Nahi ho to aisa lagta hai

تم نہیں ہو تو ایسا لگتا ہے 
جیسے ویراں ہو راہ گزار _حیات
جیسے خوابوں کے رنگ پھیکے ہوں
جیسے لفظوں سے موت رستی ہو 
جیسے سانسوں کے تار بکھرے ہوں
جیسے نوحہ کناں ہو صبح_چمن
تم نہیں ہو تو ایسا لگتا ہے
جیسے خوشبو نہیں ہو کلیوں میں
جیسے سونا پڑا ہو شہر _دل
جیسے کچھ بھی نہیں ہو گلیوں میں
جیسے خوشیوں سے دشمنی ہو جاۓ
جیسے جزبوں سے آشنائی نہ ہو
تم نہیں ہو تو ایسا لگتا ہے
جیسے اک عمر کی مسافت پر
بات کچھ بھی سمجھ نہ آئی ہو
جیسے چپ چپ ہوں آرزو کے شجر
جیسے رک رک کے سانس چلتی ہو 
جیسے بے نام ہو دعا کا سفر
جیسے قسطوں میں عمر کٹتی ہو
تم نہیں ہو تو ایسا لگتا ہے
جیسے اک خوف کے جزیرے میں
کوئی آواز دے کے چھپ جاۓ
جیسے ہنستے ہوۓ اچانک ہی
غم کی پروا سے آنکھ بھر جاۓ
تم نہیں ہو تو ایسا لگتا ہے۔؟

Pholon wala Jungal

ہم دونوں
اک پھولوں والے جنگل میں
ننگے پاؤں
دن بھر گھومتے رہتے ہیں
باتیں کرتے
لڑتے جھگڑتے
شور مچاتے
پھول بھرے ان رستوں پر
دن بھر چلتے رہتے ہیں
ان دیکھے پھولوں کی خوشبو
ہم کہ کھینچی رہتی ہے
-
جس جانب بھی جائیں وہاں پر
رنگ برنگے لاکھوں پھول کھلے ہوتے ہیں
چلتے چلتے
کوئی ندیا جائے تو
پھول بھری اک شاخ پکڑ کر
وہ کہتی ہے
دیکھو اس میں
پھول ہی پھول بہے جاتے ہیں
سچ کہتی ہے 
اتنے پھول 
ہمیں ہاتھوں سے پھول ہٹا کر 
پانی پینا پڑتا ہے
چلتے چلتے 
کوئی جھرنا آجائے تو


آنکھیں ملتے
وہ کہتی ہے
دیکھو
جھرنا کتنا سندر ہے
بہتے گرتے پھول اسے 
حیران کیے رکھتے ہیں
وہ کہتی ہے 
دیکھو تو
پانی میں اتنے پھول کہاں سے آتے ہیں
کیا جھرنے پھول اگاتے ہیں
میں ہنس پڑتا ہوں
اس کی ایسی باتوں پر میں
اکثر ہنس پڑتا ہوں
پھول ہماری ساری باتیں سنتے ہیں
اس جنگل کے
پنچھی بھی ہیں پھولوں جیسے
ان کو دیکھ کے یوں لگتا ہے
جیسے پھول اڑے جاتے ہوں
جب جنگل میں
تیز ہوائیں چلتی ہیں
اتنے پھول بکھر جاتے ہیں
سارے رستے
ان پھولوں کے نیچے آکر
مر جاتے ہیں
چاند اور سورج
روپ بدلتے رہتے ہیں
ہم پھولوں پر چلتے رہتے ہیں
ٓآخر کھو جاتے ہیں
گم ہو جاتے ہیں
-
حسن عباسی

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...