Friday, April 29, 2016

Teri Adat Kaho is ko?

سنو ۔۔۔۔!!!
تری عادت کہوں اِس کو ؟؟؟ 
یا پھر کوئی شرارت ہے 
میں جب بھی تم سے کہتی ہوں 
میرا اِک کام کر دو نا۔۔۔۔!! 
تو نہ تم پوچھتے ہو کہ
ضروری کام ہے کوئی ؟؟؟
یا جلدی تو نہیں کوئی؟؟؟ 
نہ تم انکارکرتے ہو 
نہ ہی اقرار کرتے ہو
فقط چیزیں اُلٹتے ہو
یونہی صفحے پلٹتے ہو 
نظر انداز کر کے تم ،
بہت مصروف ہونے کا 
بہانہ خوب کرتے ہو! 
پلٹ کر کچھ نہیں کہتے
تمہاری بے رخی مجھ کو 
ذرّہ بھرنہیں بھاتی 
پھر تم سے جب خفا ہو کر 
کبھی تھوڑا جدا ہو کر
یہ کہتی ہوں کہ" میری تم ذرا پرواہ نہیں کرتے" تو پھراچھا ۔۔ میں چلتی ہوں!!! 
نہیں ہے کام اب تم سے 
نہ اب میں تم سے بولوں گی 
پلٹتے ہی مرے تم یوں 
اچانک سامنے آ کر 
ذرا سامسکرا کر پھر
بہت شیریں لہجے میں 
کچھ ایسے مجھ سے کہتے ہو
کہو۔۔۔۔۔ کیا چاہیے تم کو؟؟؟
کہو تو ۔۔۔۔جان دے دوں میں؟؟؟ 
تمھارے ایک اشارے پر
یا اِن قدموں میں نازک سے 
ستارے ڈھیر کر دوں میں؟
مگر۔۔۔ بس اِک گزارش ہے 
تم مجھ سے اسطرح سے پھر 
کبھی نہ یوں خفا ہونا!!!! 
نہ مجھ سے روٹھ کر جانا !!!!
تمہاری اِس ادا پر میں 
ہمیشہ کی طرح پھر سے
گلے ،شکوے، شکایت سب
کو یک دم بھول جاتی ہوں 
اور پھر سے ہنس کے کہتی ہوں 
سنو ۔۔۔۔۔اک کام ہے تم سے!!
-
مناہلؔ فاروقی

Bata K Jao

چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ
کہ کتنی شامیں اداس آنکھوں میں کاٹنی ہیں ؟
کہ کتنی صبحیں اکیلے پن میں گزارنی ہیں ؟
بتا کے جاؤ کہ کتنے سورج عذاب راستوں کو دیکھنا ہے ؟
کہ کتنے مہتاب سرد راتوں کی وسعتوں سے نکالنے ہیں ؟
بتا کے جاؤ
کہ چاند راتوں میں وقت کیسے گزارنا ہے ؟
خاموش لمحوں میں تجھ کو کتنا پکارنا ہے ؟
بتا کے جاؤ
کہ کتنے لمحے شمار کرنے ہیں ہجر راتوں کے ؟
کہ کتنے موسم ایک ایک کر کے جدائیوں میں گزارنے ہیں ؟
بتا کے جاؤ
کہ پنچھیوں نے اکیلے پن کا سبب جو پوچھا
تو کیا کہوں گا ؟
کسی نے رستے میں روک کر جو مجھ سے پوچھا
کہ پچھلے موسم میں سائے سائے جو اجنبی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔!!
کہاں گیا ہے ؟
تو کیا کہوں گا ؟
بتا کے جاؤ
میں کس سے تیرا گلہ کروں گا ؟
بچھڑ کے تجھ سے حبیب ، کس سے ملا کروں گا ؟
بتا کے جاؤ کہ آنکھ برسی تو کون موتی چنا کرے گا ؟
اداس لمحوں میں دل کی دھڑکن سنا کرے گا ؟
بتا کے جاؤ کہ موسموں کو پیام دینے ہیں ؟ یا نہیں ؟
فلک کو ، تاروں کو ، جگنوؤں کو سلام دینے ہیں ؟ یا نہیں ؟
بتا کے جاؤ
کہ کس پہ ہے اعتبار کرنا ؟
تو کس کی باتوں پہ بےنیازی کے سلسلے اختیار کرنا ؟
بتا کے جاؤ کہ اب رویوں کی چال کیا ہو ؟
جواب کیا ہو ؟ سوال کیا ہو ؟
عروج کیا ہو ؟ زوال کیا ہو؟
نگاہ ، رخسار ، زلف ، چہرہ ، نڈھال کیا ہو ؟
بتا کے جاؤ
کہ میری حالت پہ چاندنی کھلکھلا پڑی تو
میں کیا کروں گا ؟
بتا کے جاؤ
کہ میری صورت پہ تیرگی مسکرا پڑی تو
میں کیا کروں گا ؟
بتا کے جاؤ کہ تم کو کتنا پکارنا ہے ؟
بچھڑ کے تجھ سے یہ وقت کیسے گزارنا ہے ؟
اجاڑنا ہے ؟ نکھارنا ہے ؟
چلے جو ہو تو
بتا کے جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔!!
کہ لَوٹنا بھی ہے ؟ یا ۔۔۔۔۔۔۔۔

Me Tenu Fair Milaan gi


میں تینوں فیر ملاں گی
کِتھے؟ کس طرح؟ پتا نہیں
شاید تیرے تخیل دی چھنک بن کے
تیرے کینوس تے اتراں گی
یا ہورے تیرے کینوس دے اُتے
اک رہسمئی لکیر بن کے
خاموش تینوں تکدی رواں گی
یا ہورے سورج دی لو بن کے
تیرے رنگاں اچ گھُلا گی
یا رنگاں دیاں باہنواں اچ بیٹھ کے
تیرے کینوس نو ولاں گی
پتا نئیں کس طرح، کتھے
پر تینوں ضرور ملاں گی
یا ہورے اک چشمہ بنی ہوواں گی
تے جیویں جھرنیاں دا پانی اڈ دا
میں پانی دیاں بُونداں
تیرے پنڈے تے مَلاں گی
تے اک ٹھنڈک جئی بن کے
تیری چھاتی دے نال لگاں گی
میں ہور کج نئیں جاندی
پر اینا جاندی آں
کہ وقت جو وی کرے گا
اے جنم میرے نال ٹُرے گا
اے جسم مُکدا اے
تے سب کج مُک جاندا
پر چیتیاں دے تاگے
کائناتی کنا دے ہوندے
میں انہاں کنا نو چناں گی
تاگیاں نو ولاں گی
تے تینوں میں فیر ملاں گی
-
امرتا پریتم۔

Woh Larki



"وہ لڑکی"

میں کتنی ساعتوں سے،
آئینے کے سامنے ساکت کھڑی، یہ سوچتی ہوں !!!
مجھ سے، وہ لڑکی، حقیقت میں،
ذیادہ خُوبصورت تھی؟
تو کیا تم واقعی اُس نازنیں کی صندلیں آغوش پا کر
بھُول بیٹھے تھے؟
"تمہیں مجھ سے محبت ہے"
مِری آ نکھوں سےبڑھ کر پر کشش آنکھیں تھیں کیا اُس کی؟
بتاؤ ناں !!!!
مگر ہاں ٹھیک ہے شاید،
کہ مجھ جیسی،
اُداسی میں بھری،
بیکار سی لڑکی سے اُلفت کے تقاضے بھی کوئی پاگل نبھاتا ہے؟
کہ ظاہر ہے،
جہانِ رنگ و بُو میں کوئی آخر بوجھ اُلفت کا،
بھلا کب تک اُٹھاتا ہے۔۔۔ 
-
فریحہ نقوی

Haseena Baal Suljhao

حسینہ، بال سُلجھاؤ!
اُلجھتی سانس سے سینے کے اُلجھاؤ نہیں جاتے
ھمارے ساتھ مت آؤ، یہ کچی عُمر کے گھاؤ
صدا کے تار سے سِلتے نہیں
جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں رستے بُلاتے ھیں
نئے رستے کی منزل سے ھمارا ذکر مت کرنا
ھمارا کیا
پُرانے زخم لے کر جا رھے تھے
اِک عجب سا راستے میں بَل پڑا ھے
ساتویں جانب مسافر چل پڑا ھے
اس طرف آتی صدا بے سود ٹھہرے گی
پُکاروں کی لگامیں کھینچ رکھو
سواری رُک نہیں سکتی!
بھری آنکھوں سے خالی راہ تکتی سوگواری نے
بہت تاخیر کر دی ھے
بگوُلے بَین کرتے ھیں
کوئی دو مُٹھیاں مٹی کی، تُربت پر نہ ڈالے تو
وھی مٹی وہ اپنے سر میں ڈالے گا!
برستے آنسوؤں سے کب سروں کی خاک دُھلتی ھے
دَبی چیخوں سے چلتے پاؤں کا رُخ موڑنا مُمکن نہیں ھوتا
کہیں جانے کی جلدی ھو
تو پھر نوحہ گری، گریہ گزاری کون سُنتا ھے
مُسافر چل پڑا ھے
تم صدائیں روک سکتی ھو، سواری رُک نہیں سکتی!
سمیٹو بَین، بِکھرے بال سُلجھاؤ
یہ آنسُو پونچھ لو
اِتنا بھی انساں کا نمک اَرزاں نہیں ھوتا
کہ دو اشکوں سے دُھل جائے!
پشیماں سِسکیاں، آھیں، دُعائیہ لفظ اپنے پاس ھی رکھو
لرزتے لب نہ لرزیں اب
اِنہی خاموش ھونٹوں سے
کبھی جیتے سَمے جو تین لفظوں کی کمائی کر نہیں پایا
تو اب جاتے سَمے تم سے مُسافر کیا کمائے گا
ھوا میں جُھولتے بازو یہ کہتے ھیں
پلٹ جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ ھمارے ساتھ مت آؤ
ھماری چار شانوں پر سواری چل رھی ھے
اور مُسافر رُک نہیں سکتا!
------------------------------------------
شہزاد نیر

Roz O Shab K maily me

روز و شب کے میلے میں
غفلتوں کے مارے ھم
بس یہی سمجھتے ھیں
ھم نے جِس کو دفنایا
بس اُسی کو مرنا تھا۔
-
”انور مَسعود“

Ye Kaisi Teri Parit Piya


یہ کیسی تیری پریت پیا
-
یہ کیسی تیری پریت پیا
تو دھڑکن کا سنگیت پیا
-
ترے رسم رواج عجیب بہت
مرا در در پھرے نصیب بہت
ترا ہجر جو مجھ میں آن بسا
میں تیرے ہوئی قریب بہت
-
مجھے ایسے لگ گئے روگ بُرے
میں جان گئی سب جوگ بُرے
آ سانول نگری پار چلیں
اس نگری کے سب لوگ بُرے
-
تجھے دیکھ لیا جب خواب اندر
میں آن پھنسی گرداب اندر
بن پگلی، جھلَی، دیوانی
میں ڈھونڈوں تجھے سراب اندر
-
ترے جب سے ہو گئے نین جدا
مرے دل سے ہو گیا چین جدا
کیا ایک بدن میں دو روحیں
ہم جسموں کے مابین جدا
-
یہ ہے ازلوں سے رِیت پیا
کب مل پائے من میت پیا
اب لوٹ آؤ سُونے مَن میں
کہیں وقت نہ جائے بیت پیا
-
یہ کیسی تیری پریت پیا
تو دھڑکن کا سنگیت پیا
-
زین شکیل

Baba Kitnay Achay Ho Tum

بابا کتنے اچھے ہو تم
پہلی بار اِس دنیا میں سب سے پہلے
تم میرے تھے
پہلی بار میرے ہنسنے پر
تم ہنستے تھے
پہلی بار میرے رونے پر
تم چونکے تھے
پہلی بار میرے گرنے پر
تم دوڑے تھے
پہلی بار میرے چلنے پر
تم پھولے تھے
پہلی بار جو میں جھولا
تیری باہوں کے جھولے تھے
پہلی بار ڈرا تھا جب میں
تیرے سینے میں چھپ کر
دنیا میں محفوظ ہمیشہ
خود کو میں نے سمجھا
تیری سائیکل سے بھی ضروری
تھی وہ میری بائیک
تیرے جوتے پھٹے تھے پر
میرے پیروں میں نائیک
بدن پہ میرے سالوں سال
تھا اِک جوڑا
الماری میری
بھری ہوئ تھی
تیرے منہ میں فاقہ مستی 
منہ میں میرے متنجن 
تو خود تو مزدور تھالیکن 
میں تیرا شاہزادہ تھا 
بنا کسی مطلب کے سوچا 
باباتُو کتنا سادہ تھا 
آج بھی مجھ کو یاد ہے خوب 
تیری باہوں کے جھولے میں 
میں پہلا جھولاجھولا تھا
تیرے سینے سے لگ کر میں
اپنا ہر غم بھولا تھا
" بابا کتنے اچھے ہو تم "

Na ab WOh Waqt pehly sa

"عادت"

نہ اب وہ وقت پہلے سا
نہ وہ حالت ہے پہلے سی
کہاں وہ وقت تھا ہم پر
کہ اِک دوجےکو بِن دیکھے
کبھی نہ دن گزرتا تھا
کبھی نہ رات کٹتی تھی
جو سوچے بن گزرتی تھی
اور اب یہ وقت ہے ہم پر
بہانے بھی بنانے کو۔۔۔کوئی لمحہ نہیں باقی!
نہ وہ دلچسپیاں باقی
نہ ہی پہلے سی چاہت میں۔۔۔رہیں کچھ شدتیں باقی
نہ جذبوں میں حرارت ہے
نہ باتوں میں شرارت ہے
نہ شکوہ ہے، شکایت ہے
گزرتے وقت کے ہمراہ۔۔۔۔ سبھی کچھ خواب لگتا ہے
اگر باقی ہےتو۔۔۔ یہ کہ 
وہ اب بھی یاد آتا ہے!!! 
کبھی بے کار مطلب سے!
کبھی انجان حوالے سے!
عداوت کے بہانے سے!
شکایت کے بہانے سے!
مجھے وہ یاد آتا ہے!
اِک عادت کے بہانے سے!


مناہلؔ فاروقی

Muhobat K Darkhton Ka bhi apna Bakht hota hai

محبت کے درختوں کا بھی اپنا بخت ہوتا ہے
-
محبت کے درختوں سے
کوئی پتہ بھی گر جائے
ہوا کو چوٹ لگتی ہے
عجب وحشت کے عالم میں
ہوا یوں سنسناتی ہے
اسے رستہ نہیں ملتا
کوئی تو دشت ہو ایسا
جہاں دیوار ہو غم کی
جہاں وہ سر پٹخ ڈالے
مگر بے درد آندھی کو
خبر شاید نہیں کہ جب
محبت کے درختوں سے
کوئی پتہ اگر ٹوٹے
تو اک اک شاخ کو
اس سے بچھڑ جانے کا کتنا رنج ہوتا ہے
جڑوں کی آخری حد تک
بلا کا درد رہتا ہے
ہوا کو اس سے کیا مطلب
اسے تو ایک ہی پتے کا ماتم کرنا ہوتا ہے
ہوا تو شور کرتی ہے
اور اس کے شور سے
کتنے ہی پتے پھر اُجڑتے ہیں
اُسے کیسے خبر ہو گی کہ تنہا پیڑ
بے چارہ
سلگتی دھوپ میں
تنہا
تھکا ہارا
کھڑا
نہ بیٹھ سکتا ہے
نہ آنسو پونچھ سکتا ہے
مگر وہ پھر بھی سایہ دار ہے
اپنی جگہ قائم
فقط خاموش اور ساکت
مگراکثر وہ کچھ کچھ بُڑبڑاتا، بولتا ، باتیں بھی کرتا ہے
وہی باتیں کہ جو بے چین سا اک شخص
اس پر لکھ دیا کرتا
کسی بچھڑے ہوئے کے نام کچھ یادیں۔۔
سنو!
تم جب کبھی تنہا کسی بھی پیڑ کے سائے میں بیٹھو
تو کبھی کچھ بھی نہیں لکھنا
نہ میرا نام اپنے ساتھ
نہ اپنا علیحدہ سے
محبت کا شجر سب کچھ سمجھتا ہے
اُسے پڑھنا بھی آتا ہے
تمہیں میں اس لیے محتاط کرتا ہوں
کہ اُس کا بخت اپنا ہے
تم اپنا اور میرا نام اپنے دل میں ہی لکھو
تو بہتر ہے۔
جب اپنے بخت سے تم لڑ نہیں سکتیں
تو پھر کس واسطے پیڑوں کو اپنا دکھ سناتی ہو
انہیں کیو نکر ستاتی ہے
وہ اپنے درد سے عاجز
تمہارا دُکھ کہاں بانٹیں؟
محبت کے درختوں سے
گرے ،بکھرے ہوئے پتے جہاں دیکھو
اُٹھاؤ!
اپنے آنچل میں سمیٹو
اور واپس لوٹ کر آؤ!!
سو ممکن ہے تمہارا درد بَٹ جائے!
-
زین شکیل

Tumhary Liye Khat

تمہارے لیے خط 
-
یہ جو دامن عمر میں چند سانسیں بچی ہیں مجھے یہ بھی گرتی نظر آرہی ہیں۔۔۔۔
تمہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں 
پھر بھی اس خط میں اپنے سبھی پاس ورڈ اور گھر کا پتہ لکھ رہی ہوں۔۔۔۔
اگر تم کبھی بھی مرے گھر پہ آؤ تو الماری کے ایک خانے میں کچھ فلسفے کی کتابوں کے پیچھے ہرے رنگ کا فولڈر دیکھ لینا،
اسے کھولنا ، اس میں برسوں پرانے تمہارے سبھی خط پڑے ہیں
خطوں میں وہ محسن کی نظمیں، 
"تری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور ۔۔۔۔۔۔۔" 
اور ۔۔۔ "مری سوچ کے گہرے پانی میں ۔۔۔۔۔"
اور فیض کی وہ غزل ۔۔۔ کیسے تھی؟
ہاں ... " نصیب آزمانے کے دن آرہے ہیں"
وغیرہ ۔۔۔۔۔
وہ سب خط پڑے ہیں
اُدھر فولڈر سے پرے دائیں جانب رجسٹر پڑا ہے 
وہی جس میں "عبدل" کے بارے میں تم نے کہانی لکھی تھی... 
کہانی کے صفحوں میں گجرے (جو اب سرمئی ہوگئے ہیں) پڑے ہیں
کہیں پھول کی پتیاں بھی پڑی ہیں۔۔۔۔۔۔
اسی میں کہیں ٹوٹی مالا کے موتی ہیں (مالا کبھی میں نے پہنی نہیں تھی تو پھر کیسے ٹوٹی؟ اگر یاد آیا تو یہ بھی لکھوں گی) ۔۔۔۔۔۔
وہیں پیچھے اک ٹی سی ایس کا بڑا سا جو ڈبہ پڑا ہے 
(وہاں سترہ رنگوں کی وہ چوڑیاں ہیں کہ جب میں نے تم سے کہا تھا "مجھے چوڑیاں بوجھ لگتی ہیں"
اور تم نے اگلے ہی دن چوڑیاں بھیج دی تھیں)
اسے کھولنا مت کہ وہ چوڑیاں تم سے شرمندہ ہوں گی، کبھی میں نے پہنیں نہیں ، کیونکہ وعدہ یہی تھا کہ تم اپنے ہاتھوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہاں!! وہیں ایک خاکی لفا فہ پڑا ہے 
مری ابتدائی دنوں کی سبھی شاعری، اس میں بکھری پڑی ہے
وہ نظمیں جنہیں فون پر سن کے ہنستے تھے تم،
اور وہ غزلیں کہ جن میں غلط قافیے تھے (ابھی تک غلط ہیں)
یہ سب میں نے دل سے لگا کر رکھا ہے۔۔۔۔۔
مرے ہاتھ پر ہاتھ رکھو ذرا !
اور یہ وعدہ کرو تم یہ سب اپنے دل سے لگا کر رکھو گے
تمہیں آخری بار جی بھر کے دیکھوں یہ جی چاہتا ہے مگر میری جاں ! اب یہ ممکن نہیں ہے
تمہیں یاد ہے ناں کہ دو سال پہلے دسمبر کی وہ آٹھویں شام تھی ۔۔۔۔۔۔۔
-
فریحہ نقوی

Me Shaam sy SHyad DOobi thi

میں شام سے شاید ڈوبی تھی،
ناصر کےسہانے شعروں میں ۔ ۔ ۔ ۔ 
کاغذ کے پرانے ٹکڑوں میں،
یہ چند اثاثے نکلے ہیں۔ ۔ ۔ !!!
کچھ پھول کی سوکھی پتیاں ہیں ،
کچھ رنگ اڑی سی تحریریں 
یہ خط کے خالی لفافے ہیں،
اور میری تمہاری تصویریں،
یہ دیکھو کلائی کے گجرے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ ٹوٹے موتی مالا کے ۔۔۔۔
لو آج کی ساری رات گئی !!!
-
فریحہ نقوی

Sunday, April 10, 2016

Sajay Huey Shehar K Makinoo

سجے ہوئے شہر کے مکینو 
مجھے نہ دیکھو 
میں بے زماں بے مکاں اداسی کے کھردرے ہاتھ سے 
تراشیدہ "سنگ زادہ "
میرے بدن پر قبائے سادہ 
مسافتوں سے اٹا لبادہ
میں خواہشوں کے ہجوم میں بھی 
خود اپنے خوابوں کا آدمی ہوں 
میں کتنی صدیوں کی بے بسی ہوں
-
سجے ہوئے شہر کے مکینو 
مجھے نہ دیکھو 
میں اجنبی ہوں 
میں اجنبی ہوں ، خود اپنے بیتے ہوئے مہ و سال کی خراشوں سے 
اجنبی ہوں 
میرے قبیلے پہ 
ہجرتوں کے سفر میں 
شبخوں ...ہوا نے مارا 
میرے پیش و پس دھوپ ہی دھوپ ہے 
میرے یمین ویسار لاشوں کے سرخ ٹیلے 
میں کس کس کا ماتم کروں عزیزو ؟
میں کس کو آواز دوں ...کہ میں تو 
تمام لاشوں سے اجنبی ہوں
-
سجے ہوئے شہر کے مکینو 
مجھے نہ دیکھو 
کہ میرا سایا 
تمہاری رنگوں میں نہائی صبحیں 
چبا نہ ڈالے 
کہ میرا سایا 
کسی کھنڈر میں پرانی محراب کا دیا ہے 
نہ میرے سینے میں روشنی ہے 
نہ میرے لب پہ کوئی دعا ہے
-
سجے ہوئے شہر کے مکینو 
مجھے نہ دیکھو 
میری کٹی انگلیوں کی زد میں 
قلم کی جنبش تراشتی ہے 
تمام نوحے اداسیوں کے 
تمام لہجے 
اجاڑ بستی کے باسیوں کے
-
مجھے نہ دیکھو کہ میری آنکھیں 
اجاڑ صدیوں کے زائچے ہیں 
کہ میرے ہونٹوں پہ 
موت کو پھانکتی ہواؤں کے ذائقے ہیں
-
سجے ہوئے شہر کے مکینو 
مجھے نہ دیکھو 
میں اپنی میت کا آپ وارث 
میں اپنے بے آسرا لہو کا 
خود آپ "برزخ "
میرے نفس میں اترتی صبحوں 
بکھرتی شاموں کی 
خود کشی ہے 
حذر کرو میری قربتوں سے 
کہ میرا ماحول دوزخی ہے
-
سجے ہوئے شہر کے مکینو 
مجھے نہ دیکھو 
مجھے نہ چھیڑو 
نہ میرے دکھ کا سفر کرو تم 
ہوا کو اتنی خبر کرو تم 
ہوا جو مجھ سے الجھ رہی ہے 
ہوا جو مٹی میں دفن ہوتی ہوئی اداسی 
سے 
اجنبی ہے 
ہوا جو رستے مٹا رہی ہے
-
سجے ہوئے شہر کے مکینو 
مجھے نہ دیکھو 
مجھے نہ چھیڑو
-
محسن نقوی

Woh Kehta hai


وہ کہتا ہے
ٌمیں ہر انسان کے دل میں چھپے رازوں سے واقف ہوں
دعائیں اس کے ہونٹوں پر جو رہ رہ کر مچلتی ہیں
انہیں میں تب سے سنتا ہوں 
کہ جب اس کو ابھی الفاظ کے معنی نہ آتے تھے
اگر یہ بات ہے یونہی تو پھر وہ کیوں یہ کہتا ہے؟؟
زمیں والوں دعا مانگو
جو دل میں ہے وہ سب کہ دو
ہے جو بھی مدعا، مانگو
میرے د ل میں بہت دن سے یہ الجھن تھی
اگر وہ جانتا ہے (اور یقیناً جانتا ہے) تو
وہ کیوں میری دعاؤں کو
میرے ہونٹوں سے سننے کے لیے اصرار کرتا ہے
تو کیا اس کو
مری بے چارگی ، بے مائیگی اور بے کسی کی گڑگڑاہٹ سے
کوئی تسکین ملتی ہے
وہ مالک ہے زمینوں کا، آسمانوں اور خلاؤں کا
مرے اشکوں کی آخر اس سخی کو کیا ضرورت ہے
انہی الجھے سوالوں کا بہت سا بوجھ تھا دل پر
جسے لے کر
میں پہلی مرتبہ داخل ہوا تھا صحنِ کعبہ میں
ہوا کچھ یوں
نمازِ فجر سے پہلے، حضوری کی عنایت کے تشکر میں
اٹھائے ہاتھ جب میں نے او ر ان معمول
کے لفظوں میں پھر وہ دعا مانگی
کہ جو میرا وظیفہ تھا
تو یک دم یوں لگا مجھ کو
کسی نادیدہ دستِ مہرباں نے میرے شانے کو
ؓبڑی شفقت سے تھپکا ہو
اسی لمحے کوئی خوشبو میرے چارسو پھیلی
او ر اِک رحمت بھری آواز نے کانوں میں رَس گھولا
-
مرے بندے
دعا وہ راستہ ہے جوتجھے تجھ سے ملاتا ہے
یہ ایسا آئینہ ہے
جس میں کوئی عکس بھی قائم نہیں ہوتا
-
کہ میں اس کو اٹھا لیتاہوں بننے سے کہیں پہلے
کہ اس کے حسن میں اس حسنِ کامل کی شباہت ہے
یہ ساری وسعتِ کون ومکاں جس کی شباہت ہے
شفاعت اِس کو حاصل حشر میں اس ذات کی ہوگی کہ جو محبوب ہے میرا
دعا میں سب کی سنتا ہوں کہ سب مخلوق ہے میری
مگر تیری دعاؤں کو میسر یہ فضیلت ہے
کہ اِن کو اس مرے محبوب کے ہونٹوں سے نسبت
کہ جوسردار ہے تیرا
دعا میرے محمدﷺ کی بہت مرغوب سنت ہے
دعا میری نہیں بندے، دعا تیری ضرورت ہے
-
امجد اسلام امجد

Sirf Mery Liye HO Tum


صرف میرے ہو تم
صبح کے عکس میں، شام کے روپ میں
میں نے دیکھا تمیں
ڈولتی چھاؤں میں، پھیلتی دھوپ میں
وقت سے ماورا ایک احساس میں
جیسے پردے کھلیں بدھ پہ بن باس میں
میں نے دیکھا تمہیں، جھٹپٹے کے سمے
دور تک آسماں جب سنہرا ہوا
جب سمندر لگے بات کرتا ہو
بہتا دریا ہو محسوس ٹھہرا ہوا-


تم ملے تو مجھے پر نہیں اس طرح
اجنبی جس طرح
اک سرائے کی ڈھلتی ہوئی شام میں، ایسے ہنگام میں
جب تھکن کے ہوں آنکھوں پر پہرے لگے اور معنی کوئی
گیت ایسا کسی کے لیے چھیڑ دے
جسں میں مستی ہو اک جھومتی لہر کی
جس میں مستی ہو اک جھومتی لہر کی
جس میں یادیں ہوں اک گمشدہ شہر کی
جو نگاہوں کے آگے سے ہٹتا نہ ہو
ایک پل جس کی فرقت میں کٹتا نہ ہو
اور دل، اک الاؤ میں جلتی ہوئی
لکڑیوں کی طرح راکھ ہونے لگیں
جال بنتی ہوئی مکڑوں کی طرح
آپ ہی اپنے رستے کو کھونے لگیں

تم نے دیکھا مجھے پہلے پہلے یونہی جیسے دیکھے کوئی ایک رہگیر کو
جو اچانک کسی اجنبی موڑ پر بے ارادہ ملے
اور شاید اسی
ایک لمحے میں تم، بھیڑ میں ہوکے گم، بھول جاتے مجھے

(کہ مقدر یہی ہے، ہر ایسی اچانک ملاقات کا، سر سری بات کا)
اور مرضی مگر کچھ ستاروں کی تھی
یک بیک جو تمہیں جانے کس چیز سے، ایک ٹھوکر لگی اور تم ایک دم
آگرے اس طرح میری آغوش میں
جیسے دو دیر سے بچھڑے ساتھی ملیں
وصل کی شب دیا اور باتی ملیں

سال گزرے بہت اس ملاقات کو
ہاں گھڑی وہ مگر اب بھی گزری نہیں
ہو مرے بازوؤں کے ہی گھیرے میں تم
ساری شاموں میں تم، ہر سویرے میں تم

میں نے دیکھا تمہیں پھر نہ دیکھا کہیں
اب یہاں سے کہیں مجھ کو جانا نہیں
میں جہاں پر بھی ہوں بس تمہارا ہوں میں
تم جہاں پر بھی ہو صرف میرے ہو تم
صرف میرے ہو تم!

امجد اسلام امجد

Tu Chal aay Mosam e giriya



تو چَل اے موسمِ گریہ
-
تو چل اے موسمِ گریہ‘ پھر اب کی بار بھی ہم ہی
تری انگلی پکڑتے ہیں تجھے گھر لے کے چلتے ہیں
وہاں ہر چیز ویسی ہے کوئی منظر نہیں بدلا
ترا کمرہ بھی ویسے ہی پڑا ہے‘ جس طرح تُو نے 
اُسے دیکھا تھا‘ چھوڑا تھا
”ترے بستر کے پہلو میں رکھی اس میز پر اب بھی
دھرا ہے مگ وہ کافی کا
کہ جس کے خشک اور ٹوٹے کناروں پر
ابھی تک وسوسوں اور خواہشوں کی جھاگ کے دھبّے نمایاں ہیں
قلم ہے‘ جس کی نِب پر رَت جگوں کی روشنائی یوں لرزتی ہے
کہ جیسے سُوکھتے ہونٹوں پہ پپڑی جمنے لگتی ہے
وہ کاغذ ہیں
جو بے روئے ہوئے کچھ آنسوﺅں سے بھیگے رہتے ہیں
ترے چپّل بھی رکھے ہیں
کہ جن کے بے ثمر تلووں سے وہ سب خواب لپٹے ہیں
جو اِتنا روندے جانے پر بھی اب تک سانس لیتے ہیں
ترے کپڑے‘
جو غم کی بارشوں میں دُھل کے آئے تھے
مِری الماریوں کے ہینگروں میں اَب بھی لٹکے ہیں
دلاسوں کا وہ گیلا تولیہ
اور ہچکیوں کا اَدھ گھلا صابن
چمکتے واش بیسن میں پڑے ہیں اور
ٹھنڈے گرم پانی کی وہ دونوں ٹونٹیاں اب تک
رواں ہیں توُ جنھیں اس دن
کسِی جلدی میں چلتا چھوڑ آیا تھا
دریچے کی طرف دیوار پر لٹکی گھڑی
اب بھی‘ ہمیشہ کی طرح‘
آدھا منٹ پیچھے ہی رہتی ہے
کلنڈر پر رُکی تاریخ نے پلکیں نہیں جھپکیں
اور اس کے ساتھ آویزاں!!
وہ اِک مہکارتا منظر‘
وہ اِک تصویر جس میں وہ
مِرے شانے پہ سر رکھّے مِرے پہلو میں بیٹھی ہے
مِری گردن اور اِس کے گیسوﺅں کے پاس ایک تتِلی
خوشی سے اُڑتی پھرتی ہے
کچُھ ایسا سحر چھایا ہے
کہ دل رُکتا‘ ہَوا چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے-“
مگر اے موسمِ گریہ‘
اُسی ساعت 
نجانے کس طرف سے تُو چلا آیا
ہمارے بیچ سے گزرا
ہمارے بیچ سے تُو اس طرح گزرا
کہ جیسے دو مخالف راستوں کو کاٹتی سرحد
کہ جس کے ہر طرف بس دُوریوں کی گرد اُڑتی ہے


اُسی اِک گرد کی تہہ سی
تجھے دروازے کی بَیل پر جمی شاید نظر آئے
کوئی تصویر کے اندر کمی شاید نظر آئے
تمنّا سے بھری آنکھیں جو ہر دَم مُسکراتی تھیں
اب اُن آنکھوں کے کونوں میں نمی شاید نظر آئے
-
امجد اسلام امجد

Ye Kis Lehjay me Tu Rukhsat hua Mujh sy


میری زندگی میں نرم آوازوں کے جگنو 
کم چمکتے ہیں 
فصیل شہر غم پر خوش صدا طائر 
کہاں آ کر ٹھہرتے ہیں 
تری آواز کا ریشم میں کیسے کاٹ سکتا تھا
مرے بس میں اگر ہوتا
تو ساری عمر 
اس ریشم سے اپنے خواب بنتا 
اور اس رم جھم کے اندر بھیگتا رہتا 
تجھے تو میرے دکھ معلوم تھے جاناں 
یہ کس لہجے میں تو رخصت ہوا مجھ سے

Parinday Bhi Humary THay, WOh Bachay BHi Humary Hain

جنھوں نے باغ کی دھجیاں اڑا ڈالیں 
پرندے اور بچے قتل کر ڈالے
مرے یسوع! 
اے پیارے! 
قسم انجیل کی یہ لوگ ھم میں سے نہیں ہیں
یہ وہ بے مغز وحشی ہیں
جنھیں غسل -جہالت راس آیا ہے
سنہری گیسووں والے 
بہت پیارے بہت اپنے مسیحا! 
پرسہ ء اہل - محمد پیش -خدمت ہے
وہ بچے بھی ہمارے ہیں 
پرندے بھی ہمارے ہیں
جو جی اٹھنے کے دن مارے گئے ہیں
-
علی زریون

aik Dhamaka Hony Tak

"ایک اور دھماکہ ہونے تک"
-
بس ایک دھماکا ہوتا ہے
اور جیتے جاگتے انسانوں کے جسم ’’گتاوا‘‘ بن جاتے ہیں
ایک ہی پل میں
اپنے اپنے خوابوں کے انبار سے بوجھل کتنی آنکھیں
ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں
ان کے دلوں میں آنے والی ساری صبحیں کٹ جاتی ہیں
ساری شامیں کھو جاتی ہیں
لاشیں ڈھونڈنے والوں کی چیخوں کو سن کر یوں لگتا ہے
انساں کی تقدیر- قیامت!
جس کو اک دن آنا تھا وہ آپہنچی ہے
مرنے والے مر جاتے ہیں
جیون کے ’’اسٹیج‘‘ پر ان کا ’’رول‘‘ مکمل ہوجاتا ہے
لیکن ان کی ’’ایگزٹ‘‘ پر یہ منظر ختم نہیں ہوتا
اک اور ڈرامہ چلتا ہے
اخباروں کے لوگ پھڑکتی ’’لیڈیں‘‘ گھڑنے لگ جاتے ہیں
(جن کے دم سے ان کی روزی چلتی ہے)
اور ٹی وی ٹیمیں کیمرے لے کر آجاتی ہیں
تاکہ ’’وژیول‘‘ سج جائے اور اعلیٰ افسر
اپنی اپنی ’’سیٹ‘‘ سے اٹھ کر ’’رش‘‘ کرتے ہیں
ایسا ناں ہو!
حاکم اعلیٰ، یا کوئی اس سے ملتا جلتا
ان سے پہلے آپہنچے
پھر سب مل کر اس ’’ہونی‘‘ کے پس منظر پر
اپنے اپنے شک کی وضاحت کرتے ہیں اور
حاکم اعلیٰ، یا کوئی اس سے ملتا جلتا
دہشت گردی کی بھر پور مذمت کرکے
مرنے والوں کی بیواؤں اور بچوں کو
سرکاری امداد کا مژدہ دیتا ہے
اور چلتے چلتے ہاسپٹل میں
زخمی ہونے والوں سے کچھ باتیں کرکے جاتا ہے
حزب مخالف کے لیڈر بھی
اپنے فرمودات کے اندر
’’کرسی والوں‘‘ کی ناکامی، نااہلی اور کم کوشی کا
خوب ہی چرچا کرتے ہیں
گرجا، برسا کرتے ہیں
اگلے دن اور آنے والے چند دنوں تک
یہ سب باتیں خوب اُچھالی جاتی ہیں
پھر دھیرے دھیرے
ان کے بدن پر گرد سی جمنے لگتی ہے
اور سب کچھ دھندلا ہوجاتا ہے
خاموشی سے اک سمجھوتہ ہو جاتا ہے
سب کچھ بھول کے سونے تک
اک اور دھماکا ہونے تک
-
امجد اسلام امجد

Jaan Hum Teri Khatir

چاہتوں کی باتوں کے دائمی حوالوں سے
دیکھ لو نکل آئے
جان ہم تری خاطر
ہم تو اب نصیبوں کا بھی گلہ نہیں کرتے
شاعروں کے بختوں میں رونقیں نہیں ہوتیں
یہ عجیب ہوتے ہیں
جنگلوں، پہاڑوں میں اک نگر بساتے ہیں 
خواب کے سہارے پر
شہر میں تو رہتے ہیں 
بَس مگر نہیں پاتے
ہم بھی ٹھیک ویسے تھے
شاعروں کے جیسے تھے
شہر کاٹ کھاتا تھا، بے کلی ستاتی تھی
جان تیری باتوں نے کس طرح بدل ڈالا
درد بھی نہیں لکھتے 
آہ بھی نہیں بھرتے
اور بیتی چاہت کو یاد بھی نہیں کرتے
جان ہم تری خاطر
اب تو مانگتے ہیں بس
ان تمام چیزوں کو، ہر طرح کی خوشیوں کو
جو کبھی نہ مانگیں تھیں
اب خدا سے کہتے ہیں
اے خدائے بحر و بر! 
آپ کو کمی کیا ہے؟
اب تو وہ سبھی کچھ دیں، جس کی خواہشیں نہ تھیں
جان تیری خاطر ہم
اب خدا سے مانگ آئے
جو کبھی نہ مانگا تھا
جو کبھی نہ پایا تھا
اور اس سے زیادہ اب کچھ بھی کر نہیں سکتے
زور بھی نہیں چلتا
بس چلا نہیں سکتے
جان! اب اگر اپنا حال نہ بدل پایا
بخت سے سیاہی کے ابر چھٹ نہیں پائے
پھر خدا کی مرضی ہے
اس سے اب گلہ کیسا
اس سے لڑ نہیں سکتے
وہ بہت بڑا ہے ناں
ہم بہت ہی چھوٹے ہیں
کچھ بھی تو نہیں ہیں ہم
صبر کرتے آئے ہیں، صبر ہی کریں گے ہم
تُو تو جانتی ہے ناں
خود کو ہیں بدل لائے
جان ہم تیری خاطر
اب بھی کچھ شکایت ہو،
اب بھی تُو خفا ہو تو،
اب بھی کچھ گلہ ہو تو
جان تیری مرضی ہے
-
زین شکیل

Ajab Ye Soog waari hai

کینوس پر پھیلی اداسی

عجب یہ سوگ واری ہے
نہ شامیں سرمئی رنگت،نہ صبحیں نور بنتی ہیں
نہ راتیں نیند کے مشکیزے لاتی ہیں
(ہماری آنکھ صحرا،خواب پیاسے ہیں)
نہ نٹ کھٹ بارشوں کی رُت ہی باقی ہے
نہ ہاتھوں کے کٹوروں میں دعا کے حرف باقی ہیں
تھکن اعصاب پر طاری،
زباں لکنت زدہ،باتیں قنوطی،
پھول پژمُردہ،تعلّق،دوستی،رشتے،
محبّت،آشتی،قصّے
جو قصّہ گو سناتے ہیں
اداسی خون خلیوں میں مسلسل رقص کرتی ہے
ہماری نظم کی ہر سطر میں تنہائی روتی ہے

Ghar me Almari nahi

بین
-
گھر میں الماری نہیں 
جس میں تری یاد
ترے خط ، تری تصویریں 
چھپا کر رکھوں
جتنے صندوق ہیں
فرسودہ خیالوں سے بھرے رہتے ہیں
جس طرح میلے کچیلے کپڑے
گھر میں بس ایک ہی تالہ ہے کہ جو
اپنی آزادی کے کنڈے میں پڑا رہتا ہے
اور کھوئی ہوئی چابی
کہ کسی طور نہیں ملنا جسے
دل کسی کانچ کے ٹوٹے ہوئے برتن میں بھرا رکھا ہے
جانے کس وقت چلک جائے کسی رخنے سے
ہم نے کچھ روز کتابوں سے اٹے کونے میں
تیری آواز چھپا کر رکھی
جانے کس بگڑے ہوئے کان مین رس جا ٹپکا
لے گیا چور کوئی چوری چھپے آخری سرمایا بھی
میں نے سوچا ہے بہت غصے میں
جو کتابیں تری آواز بھی محفوظ نہیں رکھ سکتیں
جو بچا سکتی نہیں چور سماعت سے تجھے
چھین لے جائے کوئی یہ بھی بہانہ مجھ سے
-
فرحت عباس شاہ
(موت زدہ)

Tum Ne Mujhay Kaha Tha

تم نے مجھے کہا تھا
تم میرے دوست ہو
پکے اور مخلص دوست
لیکن تم اور بھی بہت سارے لوگوں کے دوست تھے
پکے اور مخلص دوست
تم نے مجھے کہا تھا
تم مجھ سے محبت کرتے ہو
سچی اور گہری محبت
لیکن تم بہت سے دوسرے لوگوں سے بھی محبت کرتے تھے
سچی اور گہری محبت
میں نے چاہا تھا 
تم میرے ہوجاؤ
میرے اپنے
سارے اور مکمل
لیکن تم نے مجھے ہمیشہ آدھے غم دیے ہیں
اور کوئی کیا جانے
آدھے غم مکمل غموں سے کہیں زیادہ غمزدہ کر دینے والے ہوتے ہیں
-
فرحت عباس شاہ

Tum Jana chahtay Ho To Jao


تم جانا چاہتے ہو تو جاؤ
آسمانوں پر تو آؤ گے ہی نا
اماوس کی بیمار راتوں کے علاوہ
رات کے ماتھے کا ٹیکہ بن کے
یا آسمان کے کانوں کا بالا پہن کے
میرے گھر کی دیوار پر سے بھی گزرو گے
جنگل میں بھی جا ٹھہرو گے
جھیل میں اترو گے
دل کی شاخوں سے الجھتے پھرو گے
میری بینائیاں تمہیں چھو آئیں گی
پلکیں تمہارے چاروں طرف پھیلے ہوئے نور کو بوسہ دیں گی
میری روح تمہیں اپنی گود میں بھر لے گی
ہوا لوری سنائے گی
تمہیں نیند آجائے گی
اور مجھے قرار آجائے گا
اگرچہ تمہارے بغیر
اور تمہارے بعد
میری زندگی اماوس کی وہ رات بن جاتی ہے
جس میں کوئی شے سانس کو اندر جکڑ لیتی ہے
اور دل کو مسلنا شروع کر دیتی ہے
آنکھوں میں تاریکیاں اتر آئی ہیں
اور روح دھند سے بھر جاتی ہے
لیکن پھر بھی
اگر تم جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ
آسمانوں پر تو آؤ گے ہی نا
-
فرحت عباس شاہ

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...