Monday, December 29, 2014

بھلا تو دے گا 
مگر ابھی کچھہ گزشتہ لمحوں کا ذکر لے کر 
خزاں کی رت میں آوارہ پتوں کے سنگ چلے گا
بھلا تو دے گا 
مگر ابھی کچھہ گزشتہ لمحوں کے سنگ چلے گا 
ہوا کی سرد مہری پہ چپکے چپکے 
عذاب جاں کے ستم لکھے گا 
ابھی تو وہ بھی اسیر غم ہے 
اسی مسافت پہ گامزن ہے 
ابھی تو کچھہ دن طرح وہ 
شکستہ خوابوں کی کرچیوں کو 
نرم ہاتھوں کی انگلیوں کے 
ہاں زخمی پوروں سے جب چنے گا 
تو کیا کرے گا ......؟؟
توآگے رستوں پہ آتے جاتے 
جب کسی تجسس میں جب رکے گا 
"مجھے یقیں ہے وہ رو پڑے گا "
مگر کہاں تک نئے دنوں کو گئے دنوں پہ وہ ٹال رکھے 
گزشتہ لمحوں کی تتلیوں کو بھلا کہاں تک سنبھال رکھے ؟
ابھی تو کچھہ دن گئی رتوں رتوں کا بھرم رکھے گا 
سہم سہم کر قدم رکھے گا
بھلا تو دے گا 
مگر ابھی کچھہ گزشتہ لمحوں کا ذکر لے کر 
مجھے یقیں ہے 
" وہ رو پڑے گا "

نوشی گیلانی

Nazmein

ﻧﻈﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﻗﺴﻤﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﮐﭽﮫ ﻧﻈﻤﯿﮟ ﮔﮩﺮﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺟﯿﺴﮯ ﻋﻮﺭﺕ !
ﻋﻮﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﻧﻈﻢ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﮯ ﺣﺪ ﮔﮩﺮﯼ ﮨﮯ !
ﺳﻄﺤﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﻧﺌﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﯽ
ﺍﭘﻨﺎ ﺑﮭﯿﺪ ﭼﮭﭙﺎ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ !..
ﮐﭽﮫ ﻧﻈﻤﯿﮟ ﺳﺎﺩﮦ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺟﯿﺴﮯ ﺑﭽﮯ !
ﺍﯾﮏ ﺫﺭﺍ ﺳﺎ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ !
ﺻﺎﻑ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ .
ﮐﭽﮫ ﻧﻈﻤﯿﮟ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺟﯿﺴﮯ ﺩﻧﯿﺎ !
ﺩﻧﯿﺎ ﮨﯽ ﺗﻮ ﺁﺩﻡ ﮐﯽ ﭨﯿﮍﮬﯽ ﭘﺴﻠﯽ ﮨﮯ
ﺁﺩﻡ ﺯﺍﺩ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺍﺱ ﭘﺴﻠﯽ ﮐﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ
ﭼﮭﭙﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ !..
ﮐﭽﮫ ﻧﻈﻤﯿﮟ ﺳﭽﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺟﯿﺴﮯ ﺁﻧﺴﻮ !
ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺁﻧﺴﻮ ﺟﮭﻮﭦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ !....
ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﺳﭽﯽ ﻧﻈﻤﯿﮟ ﮐﻢ ﮐﻢ ﻟﮑﮭﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ..
ﮐﭽﮫ ﻧﻈﻤﯿﮟ ﺍﻋﻠﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻢ ﮨﻮ !
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﯿﻠﮯ ﺳﯿّﺎﺭﮮ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻧﻈﻤﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﭼﮑﺎ
ﮨﻮﮞ !
ﺍﺱ ﺩﮬﺮﺗﯽ ﭘﺮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺍﻋﻠﯽ ،ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ،ﺗﻢ ﺳﮯ
ﺍﭼﮭﯽ!!..
ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻈﻢ
ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ !!..
ﺗﻢ ﻭﮦ ﻭﺍﺣﺪ ﻧﻈﻢ ﮨﻮ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﺭﺏ - ﻋﻠﯽ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ ﻋﻠﯽ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ
ﻟﮑّﮭﺎ !..
ﺍﻋﻠﯽ ﻧﻈﻢ !
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﮎ ﻧﻈﻢ ﮐﺎ ﺑﮭﯿﺪ ﺑﺘﺎﺅﮞ ؟؟
ﻧﻈﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﻧﻈﻢ ﺑﮩﺖ ﻗﺎﺗﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ !..
ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺤﺒّﺖ !
ﯾﮧ ﻭﮦ ﻧﻈﻢ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﻔﻆ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ
ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮈﯾﺮﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺗﻦ ﻣﻦ ﻣﭩﯽ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻗﺎﺗﻞ ﻧﻈﻢ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﺐ ﺧﻮﺑﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ !!!..
ﻧﻈﻢ - ﻣﺤﺒّﺖ !
ﻧﻐﻤﮧ - ﻋﺸﻘﯽ !
ﺑﺰﺩﻝ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺎﻓﻖ ﻟﻮﮒ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﺳﮑﺘﮯ !..
ﺍﻋﻠﯽ ﻧﻈﻢ !
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﮎ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﺘﺎﺅﮞ ؟؟
ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻨﺎ
ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﺳﻨﻨﺎ !..
ﻧﻈﻢ - ﻣﺤﺒّﺖ !
ﻧﻈﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻧﻈﻢ ﺑﮩﺖ ﻗﺎﺗﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﮒ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ



علی زریون


Fariha

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجیئے

مجھ کو فکر رہتی ہے آپ انہیں گنوا دیجیئے
آپ کا کوئی ساتھی دیکھ لے تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں یہ بہت بُرا ہو گا
میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مری فروزینہ
زشکِ سروِ سیمینا
اے بہ نازُکی مینا
اے بہ جلوہ آئینہ 
میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں
لوحِ دل جلا دوں کیا 
سطر سطر ہے ان کی، کہکشاں خیالوں کی
کہکشاں لُٹا دوں کیا 
جو بھی حرف ہے ان کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
ان کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی
میں انہیں گنوا دوں کیا
لوحِ دل جلا دوں کیا
کہکشاں لُٹا دوں کیا 
نقشِ جاں مٹا دوں کیا

مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید
جرم کر گئی ہو تم
اور خیال آنے پر اس سے ڈر گئی ہو تم
جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے
اے مری فروزینہ! 
دل کی جانِ زرّینا!
رنگ رنگ رنگینا!
بات جو ہے وہ کیا ہے 
تم مجھے بتاؤ تو 
میں تمہیں نہیں سمجھا
تم سمجھ میں آؤ تو
جُرم کیوں کیئےتم نے
خط ہی کیوں لکھے تم نے؟ ‌

جون ایلیا
اجنبی دیکھنا یہ وہی شہر ہے 
یہ میرا شہر صحرا صفت ،دہشت خو 
جس کے رستوں کی مٹی میری آبرو 
جس کی گلیاں لکیریں میرے بخت کی 
جس کے ذرے مہ و مہر سے قیمتی
یہ وہی شہر ہے ........اجنبی دیکھنا 
جس کی چاہت تعزیر میں عمر بھر 
میری آوارگی کے فسانے بنے ....!
جس کی خاطر میرے ہم سخن ہمسفر 
بے سبب تہمتوں کے نشانے بنے 
جس کی بخشش کی تاثر کے ذائقے 
میری تشہیر کو تازیانے بنے 
میری دیوانگی نے تراشا جسے 
وہ سیہ پوش لمحے زمانے بنے
اجنبی دیکھنا یہ وہی شہر ہے .؟
جس کی جلتی ہوئی دوپہر میں سدا 
خواب بنتی رہی نوجوانی میری 
جس کے ہر موڑ پر راکھہ کے ڈھیر میں 
دفن ہوتی رہی ہر کہانی میری
جس کی پر ہول راتوں کی محراب میں 
میری غزلوں کے مہتاب جلتے رہے 
جس کی یخ بستہ صبحوں کے اصرار پر 
میرے آنسو ، شراروں میں ڈھلتے رہے
یہ وہی شہر ہے جس کے بازار میں 
بار ہا میرا پندار بیچا.............. گیا 
موسم قحط کو ٹالنے کے لئے ........!
میرے دامن کا ہر تار بیچا ........گیا
اجنبی دیکھنا ................دیکھنا اجنبی 
اپنے صحرا صفت شہر میں آج پھر 
میں دریدہ بدن .............میں بریدہ قبا 
در بدر خواہشوں کی کٹی انگلیاں 
ریزہ ریزہ مہ و سال کے ذائقے 
ہانپتے کانپتے دل کی شوریدگی 
عمر بھر کی کمائی ہوئی شہرتیں 
لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی 
ناچتی تہمتوں کی کھلی وحشتیں 
لب پہ مجروح لفظوں کی چھبتی تھکن 
تن پہ یاقوت زخموں کے تمغے لئے 
سر جھکائے ہوۓ راکھہ کے ڈھیر پر 
سوچتا ہوں کہ ہاں یہ وہی شہر ہے 
جس سے منسوب ہے میرا نام و نسب 
میرا فن،میری تخلیق،،،،، ،میرا ادب 
شورش چشم نم ........نوحہ زیر لب
میں مگر آج اس شہر کی بھیڑ میں 
صورت موج صحرا اکیلا بہت 
میرے چہرے پہ کوئی گواہی نہیں 
کچھہ بھی حاصل میرا جز تباہی نہیں
یوں بھی ہے کل جہاں تھا میں مسند نشیں 
اس جگہ خیمہ زن اب نئے لوگ 
میرے چاروں طرف اب نئے لوگ ہیں 
خود سے آباد کر قریہ شب مجھے 
کوئی پہچانتا ہی نہی اب ..........مجھے
دل میں چبھتی ہوئی درد کی لہر ہے 
میرے سچ کا صلہ ساغر زہر ہے 
سانس لینا یہاں جبر ہے قہر ہے 
اجنبی دیکھنا یہ وہی شہر ہے ....؟؟
یہ وہی شہر ہے 
اجنبی دیکھنا

محسن نقوی
آگ خرید کے لائی نی میں 
آگ خرید کے لائی 
دنیا داری قسمت ماری 
شکلیں بدلیں روز 
دل کی ایک نہ چلنے دے اور عقلیں بدلے روز 
عشق کے کاروبار میں پڑ کے 
اچھا نفح کمایا 
گھڑی گھڑی ، پل پل کو اپنے دل کا ماس کھلایا 
تن من ، دھن سب بیچ دیا ہے 
بھاگ خرید کے لائی نی میں بھاگ خرید کے لائی 
کوئل لینے گھر سے نکلی 
کاگ خرید کے لائی نی میں 
" کاگ خرید کے لائی "

( فرحت عباس شاہ )
پتھر ہی سہی راہ میں حائل تو رہوں گا 
کچھ دیر تیرا مدِ مقابل تو رہوں گا

جب تک تیری بخشش کا بھرم کھل نہیں جاتا  
اے میرے سخی میں تیرا سائل تو رہوں گا

اس واسطے زندہ ہوں سرِ مقتلِ یاراں 
وابستہء کم ظرفیِ قاتل تو رہوں گا

اے تیز ہوا میرا دھواں دیکھ کے جانا 
بجھ کر بھی نشانِ رہِ منزل تو رہوں گا

دشمن ہی سہی نام بھی لے گا میرا تو بھی 
یوں میں تیری آواز میں شامل تو رہوں گا

جب تک میں بغاوت نہ کروں جبروستم سے 
زنداں میں ہوں پابندِ "سلاسِل" تو رہوں گا

محسن زدِ اعداء سے اگر مر بھی گیا تو 
معیارِ تمیزِ حق و باطل تو رہوں گا 

محسن نقوی

Sunday, December 28, 2014

تم وہ پہلی لڑکی ہو

جس کو دیکھ کے
میری آنکھیں خوابوں سے بھر جاتی ہیں
پیار کی نیلی کرنیں
دل کے کمرے میں در آتی ہیں
تم وہ پہلی لڑکی ہو
جس سے دھوکہ کھانے کو دل کرتا ہے
جس کو دیکھ کے
میرا یونہی مر جانے کو دل کرتا ہے
تم وہ پہلی لڑکی ہو
جس کو دیکھ کے
دل کی خالی ٹہنی پر
پھول گلابی کھل جاتے ہیں
جس کو دیکھ کے
مجھ کو میری مرضی کے
سارے موسم مِل جاتے ہیں
تم وہ پہلی لڑکی ہو
جس کو دیکھ کے
سیفل جھیل پہ اُتری پریاں
اپنے ہوش گنوا سکتی ہیں
جس کو دیکھ کے
سوئی سوئی لہریں
یکدم موج میں آسکتی ہیں
تم وہ پہلی لڑکی ہو
جس کو دیکھ کے
دھوپ کا ہر اک ٹکڑا
بادل ہو سکتا ہے
جس کو دیکھ کے
چاند کسی شب
پورا پاگل ہو سکتا ہے
تم وہ پہلی لڑکی ہو
جس کو دیکھ کے ہر ایک پیار کہانی
سچی لگتی ہے
جس کو دیکھ کے مجھ کو ساری دنیا
اچھی لگتی ہے

حسن عباسی

Mann angan me shehar basa hai

من آنگن میں شہر بسا ہے، شہرمیں اک دریا بہتا ہے
جس میں چاند ستارے درپن، کبھی نہ ٹوٹنے والے بندھن
کہیں نہ بھولنے والی یادیں، ٹوٹی پھوٹی کچھہ فریادیں
روشن دن اور جھلمل راتیں
لفظ ادھورے، پوری باتیں
لہروں پر اُمڈتےجزبے بہتے جائیں
کوئی کہانی کہتے جائیں
ہرے بھرے پیڑوں پر شاخیں سایوں کی زنجیر بنائیں
پون سندیسے لیے ہوئے
نئےموسم کے خوشحال پرندے 
پلکوں پر پھیلے رنگوں سے آنکھوں میں تصویر بناٰئیں
دریا میں افلاک نہائیں
اندر کے سب بھید کنارےکھلتے جائیں
من انگن میں شہر بسا ہے
شہر میں اک دریا بہتا ہے
دریا کی لہروں میں رستے
رستوں میں ان دیکھے سپنے کھلے ہوئے ہیں
خواب دھنک خوشبو اور چہرے ملے ہوئے ہیں
تیز ہوا میں دیپ سمے کے جلے ہوئے ہیں
لیکن شہر کے دروازے پر
بے خوابی کے دُکھہ سُکھہ اوڑھے
جانے کس کی آس میں آنکھیں
نیندوں کا پہرا دیتی ہیں
لیکن شہر کے دروازے پر
بے خوابی کے دُکھہ سُکھہ اوڑھے
جانے کس کی آس میں آنکھیں
نیندوں کا پہرا دیتی ہیں

سلیم کوثر
جو اپنی عمر سے آگے نکل رہی ہو تم
تمہیں خبر ہے جوانی میں ڈھل رہی ہو تم

کبھی تمہیں بھی دعویٰ تھا سرد مہری کا
کسی کے لمس کو پا کر پگھل رہی ہو تم

بتاﺅ کیوں نہیں روکا تھا جانے والے کو؟
اب ایک عمر سے کیوں ہاتھ مل رہی ہو تم

جو والدین نے تم سے کہا وہ مان لیا
اب اپنی آگ سے چُپ چاپ جل رہی ہو تم

ہمارے دل کا کھلونا تمہی نے توڑا تھا
اب اِس کھلونے کی خاطر مچل رہی ہو تم

تمہیں گماں ہے کہ میں جانتا نہیں کچھ بھی
مجھے خبر ہے کہ رستہ بدل رہی ہو تم

وصی شاہ
لہو سے دل کبھی چہرے اُجالنے کے لئے
میں جی رہا ہوں اندھیروں کو ٹالنے کےلئے

اُتر پڑے ہیں پرندوں کے غول ساحل پر
سفر کا بوجھ سمندر میں ڈالنے کےلئے

سخن لباس پہ ٹھہرا تو جوگیوں نے کہا
کہ آستیں ہے فقط سانپ پالنے کےلئے

میں سوچتا ہوں کبھی میں بھی کوہکن ہوتا 
ترے وجود کو پتھر میں ڈھالنے کے لئے

کسے خبر کہ شبوں کا وجود لازم ہے
فضا میں چاند ستارے اچھالنے کےلئے

بہا رہی تھی وہ سیلاب میں جہیز اپنا
بدن کی ڈوبتی کشتی سنبھالنے کےلئے

وہ ماہتاب صفت آئینہ جبیں ”محسن”
گلے ملا بھی تو مطلب نکالنے کےلئے

محسن نقوی
بادشاھا، تیرے اعصاب پہ طاری، میں تھی 
وہ بھی دن تھے کہ تیری راج کماری، میں تھی 

یہ بھی سچ ہے، کہ مجھے مار دیا ہے تو نے 
یہ بھی سچ ہے، کہ تجھے جان سے، پیاری میں تھی 

درد کیا تھا، وہ تیرے دل میں جنوں تھا میرا 
اشک کب تھے، وہ تیری آنکھ سے جاری، میں تھی 

ساری دنیا کو پتا ہے، کہ نہیں تم میرے 
ساری دنیا کو پتا ہے، کہ تمہاری، میں تھی

اب تو اک جسم ہوں ، جس میں کوئی دھڑکن ہے نہ دل
کبھی سانسوں کی طرح، جاری و ساری میں تھی

تو میرے بعد بھی زندہ ہے، بہت زندہ ہے
کیسے مانوں کہ تیری وقت گزاری، میں تھی

مجھ کو دنیا نے "قمر"، بانٹنا چاہا لیکن
جس طرف دل تھا، ادھر ساری کی ساری، میں تھی

ریحانہ قمر
ﻟﺐِ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺳﮯ ﺍﻇﮩﺎﺭِ ﺗﻤﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﺎ ﻟﮩﺠﮧ ﭼﺎﮨﯿﮟ

ﺗﻮ ﭼﻠﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻮ ﺁﮨﭧ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ
ﺍﭘﻨﯽﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﯾﻮﮞ ﺗﺠﮭﮯ ﺗﻨﮩﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ

ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ ﮐﻮﺋﯽ
ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﻃﻦ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﻓﺎﺵ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ

ﺟﺴﻢ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﻮ ﻣﻠﮯ ﭼﺎﺩﺭِ ﺍﻓﻼﮎ ﮨﻤﯿﮟ
ﺳﺮ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻭﺳﻌﺖِ ﺻﺤﺮﺍ ﭼﺎﮨﯿﮟ

ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮ ﺳﯿﺮﺍﺑﯽ ﮐﻮ
ﺭﯾﺖ ﭘﺮ ﺳﻮﺋﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ

ﺑﮭﯿﻨﭧ ﭼﮍﮪ ﺟﺎﺅﮞ ﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﺧﯿﺮ ﻭ ﺷﺮ ﮐﯽ
ﺧﻮﻥِ ﺩﻝ ﺿﺒﻂ ﮐﺮﯾﮟ، ﺯﺧﻢِ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﺍﻭﺟﮭﻞ ﮨﻮ ﻣﮕﺮ ﺧﺘﻢ ﻧﮧ ﮨﻮ
ﺍِﮎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺲِ ﺑﺮﺩۂ ﺩﻧﯿﺎ ﭼﺎﮨﯿﮟ

ﺁﺝ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺗﻮ ﭼﻠﻮ ﮐﭧ ﮔﯿﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﭩﺎ
ﺍﺏ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪ ﺳﮯ ﺧﯿﺮﯾﺖِ ﻓﺮﺩﺍ ﭼﺎﮨﯿﮟ

ﺍﯾﺴﮯ ﺗﯿﺮﺍﮎ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﻈﻔـﺮ ﮨﻢ ﻧﮯ
ﻏﺮﻕ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﻮ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﭼﺎﮨﯿﮟ

مظفر وارثی
ایک عمر تلک اشک فشانی میں رہا ہے
اے عشق تیرا درد روانی میں رہا ہے

یہ چھوڑ میرے ساتھ کبھی تھا کہ نہیں تھا
وہ شخص مگر میری کہانی میں رہا ہے

اک ہجر تیرے بعد رگِ جاں میں اُتر کر
تا عمر پھر الفاظ و معانی میں رہا ہے

صحرا سے تیرے دل کی گزر گاہ تلک دوست
دل روز نئی نقل مکانی میں رہا ہے

وہ ساتھ نہیں میرے مگر سچ ہے یہ بھی
وہ شخص میری آنکھ کے پانی میں رہا ہے
کمرے میں ہے بکھرا ہوا سامان وغیرہ
خط، خواب، کتابیں گل و گلدان وغیرہ

ان میں سے کوئی ہجر میں امداد کو آئے
جن، دیو، پری، خضر یا لقمان وغیرہ

تو آئے تو گٹھڑی میں تجھے باندھ کے دے دوں
دل، جان، نظر، سوچ یہ ایمان وغیرہ

بس عشق کے مرشد سے ذرا خوفزدہ ہوں
جھیلا ہے بہت ویسے تو نقصان وغیرہ
سارے وعدوں کو بھُلا سکتی ہوں لیکن چھوڑو
میں تمہیں چھوڑ کے جا سکتی ہوں لیکن چھوڑو

یوں ہی زحمت نہ کرو تُم کہ میں اپنی خاطر
چائے میں زہر ملا سکتی ہوں لیکن چھوڑو

تم جو ہر موڑ پہ کہہ دیتے ہو اللہ حافظ
فیصلہ میں بھی سُنا سکتی ہوں لیکن چھوڑو

وہ پرندہ جو اُڑا ہے میرا پنجرہ لے کر
میں اُسے مار کے لا سکتی ہوں لیکن چھوڑو

تم نے تو بات کہی دل کو دکھانے والی
اس پہ میں شعر سُنا سکتی ہوں لیکن چھوڑو

شرم آئے گی تمہیں ورنہ تمہاری باتیں
میں تمہیں یاد دلا سکتی ہوں لیکن چھوڑو

ریحانہ قمر
وہ اجنبی اجنبی سے چہرے وہ خواب خیمے رواں دواں سے
بسے ہوئے ہیں ابھی نظر میں سبھی مناظر دھواں دھواں سے

یہ عکس ِ داغ ِ شکست ِ پیماں وہ رنگ ِ زخم ِخلوص ِ یاراں
میں غم گساروں میں سوچتا ہوں کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے

یہ سنگریزے عداوتوں کے وہ آبگینے سخاوتوں کے
دل ِ مسافر قبول کرلے ملا ہے جو کچھ جہاں جہاں سے

بچھڑنے والے! بچھڑ چلا تھا تو نسبتیں بھی گنوا کے جاتا
تیرے لیے شہر بھر سےاب بھی میں زخم کھاوں زباں زباں سے

مری محبت کے واہموں سے پرے تھا تیرا وجود ورنہ
جہاں جہاں تیرا عکس ٹھہرا میں ہوکے آیا وہاں وہاں سے

تُو ہمسفر ہے نہ ہم نفس ہے کسے خبر ہے کہ تُو کدھر ہے
میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا مکیں مکیں سے مکاں مکاں سے

ابھی محبتوں کا اسم ِ اعظم لبوں پہ رہنے دے جان ِ محسن
ابھی ہے چاہت نئی نئی سی ابھی ہیں جذبے جواں جواں سے

محسن نقوی
"ابھی ہم خوبصورت ہیں"

ہمارے جسم اوراقِ خزانی ہو گئے ہیں
اور ردائیں زخم سے آراستہ ہیں
پھر بھی دیکھو تو
ہماری خوشنمائی پر کوئی حرف
اور کشیدہ قامتی میں خم نہیں آیا
ہمارے ہونٹ زہریلی رُتوں سے کاسنی ہیں
اور چہرے رتجگوں کی شعلگی سے
آبنوسی ہو چکے ہیں
اور زخمی خواب
نادیدہ جزیروں کی زمیں پر
اس طرح بکھرے پڑے ہیں
جس طرح طوفاں زدہ کشتی کے ٹکڑوں کو
سمندر ساحلوں پر پھینک دیتا ہے
لہو کی بارشیں
یا خودکشی کی خواہشیں تھیں
اس اذیت کے سفر میں
کون سا موسم نہیں آیا
مگر آنکھوں میں نم
لہجے میں سم
ہونٹوں پہ کوئی نغمۂ ماتم نہیں آیا
ابھی تک دل ہمارے
خندۂ طفلاں کی صورت بے کدورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں
زمانے ہو گئے
ہم کوئے جاناں چھوڑ آئے تھے
مگر اب بھی
بہت سے آشنا نا آشنا ہمدم
اور ان کی یاد کے مانوس قاصد
اور ان کی چاہتوں کے ہجر نامے
دور دیسوں سے ہماری اور آتے ہیں
گلابی موسموں کی دُھوپ
جب نو رُستہ سبزے پر قدم رکھتی ہوئی
معمورۂ تن میں در آتی ہے
تو برفانی بدن میں
جوئے خوں آہستگی سے گنگناتی ہے
اُداسی کا پرندہ
چپ کے جنگل میں
سرِ شاخِ نہالِ غم چہکتا ہے
کوئی بھولا ہوا بِسرا ہوا دکھ
آبلہ بن کر تپکتا ہے
تو یوں لگتا ہے
جیسے حرف اپنے
زندہ آوازوں کی صورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں
ہماری خوشنمائی رفِ حق کی رونمائی ہے
اسی خاطر تو ہم آشفتہ جاں
عشّاق کی یادوں میں رہتے ہیں
کہ جہ اُن پر گزرتی ہے وہ کہتے ہیں
ہماری حرف سازی
اب بھی محبوبِ جاں ہے
شاعری شوریدگانِ عشق کے وردِ زباں ہے
اور گلابوں کی طرح شاداب چہرے
لعل و مرجاں کی طرح لب
صندلیں ہاتھوں سے
چاہت اور عقیدت کی بیاضوں پر
ہمارے نام لکھتے ہیں
سبھی درد نا آشنا
ایثار مشرب
ہم نفس اہلِ قفس
جب مقتلوں کی سمت جاتے ہیں
ہمارے بیت گاتے ہیں
ابھی تک ناز کرتے ہیں
سب اہلِ قافلہ
اپنے حدی خوانوں پر آشفتہ کلاموں پر
ابھی ہم دستخط کرتے ہیں اپنے قتل ناموں پر
ابھی ہم آسمانوں کی امانت
اور زمینوں کی ضرورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں

احمد فراز
دیؤں کا قد گھٹانے کے لیئے راتیں بڑی کرنا
بڑے شہروں میں رہنا ہے تو باتیں بڑی کرنا

یہ کیا جانے یہ دل کچی زمیں کا استعارہ ہے
ان آنکھوں کو تو بس آتا ہے برساتیں بڑی کرنا

محبت میں بچھڑنے کا ہنر سب کو نہیں آتا
کسی کو چھوڑنا ہو تو ملاقاتیں بڑی کرنا

وسیم بریلوی

Roozgar K silsaly


میں روزگار کے سلسلے میں
کبھی کبھی اس کے شہر جاتا ہوں
تو گزرتا ہوں اس گلی سے
وہ نیم تاریک سی گلی
اور اسی کے نکڑ پے اونگتا سا پرانا کھمبا
اسی کے نیچے تمام شب انتظار کر کے
میں چھوڑ آیا تھا شہر اس کا
بہت ہی خستہ سی روشنی کی چھڑی کو ٹیکے
وہ کھمبا اب بھی وہیں کھڑا ہے
فطور ہے یہ مگر
میں کھمبے کے پاس جا کر
نظر بچا کے محلے والوں کی
پوچھ لیتا ہوں آج بھی یہ
وہ میرے جانے کے بعد بھی
یہاں آئی تو نہیں تھی
وہ آئی تھی کیا

گلزار

Tum Kiya jano

تم کیا جانو عشق میں گزرے لمحے کیا بیکار گئے
پیار تو جیون کی بازی تھی، تم جیتے ہم ہار گئے

ہجر کے جاگتے لمحو تم کو یاد ہو تو اتنا بتلاؤ
کتنے چاند نکل کر ڈوبے اور کتنے تہوار گئے

جلتی ہوئی سڑکوں پر رقصاں دھول بھرا سنّاٹا تھا
ہم جو سلگتی تنہائی کے خوف سے کل بازار گئے

جن کو آنگن آنگن سینچا موسم موسم لہو دیا
دھوپ چڑھی تو ان پیڑوں کے سائے پسِ دیوار گئے

وہ جگنو، وہ جگ مگ چہرے گلیوں کا سرمایہ تھے
اندھی صبح کی سرحد پر جو رات کی پونجی وار گئے

جس سے بغاوت کی پاداش میں میرا قبیلہ قتل ہوا
گاؤں کے اس خونی میلے میں میرے سارے یار گئے

ہم کیا جانیں یار سلیم کہ نفرت کیسی ہوتی ہے
ہم بستی کے رہنے والے شہر میں پہلی بار گئے

سلیم کوثر

Thor dair zara sa aur wohi rukti


تھوڑی دیر ذرا سا اور وہیں رُکتیں تو
سُورج جھانک کے دیکھ رہا تھا کھڑکی سے
ایک کرن جُھمکے پر آ کر بیٹھی تھی،
رُخسار کو چوُمنے والی تھی کہ 
تم مُنہ موڑ کے چل دِیں اور بیچاری کرن
فرش پہ گر کے چوُر ہوئی
تھوڑی دیر، ذرا سا اور وہیں رُکتی تو ؟

گلزار
شبِ ﻧﺸﺎﻁ ﺗﮭﯽ ﯾﺎ صبحِ ﭘﺮ ﻣﻼﻝ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ
ﺗﮭﮑﻦ ﺳﮯ ﭼﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﻨﺪ ﺳﮯ ﻧﮉﮬﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ

ﻣﯿﮟ اُﺱ ﮐﯽ ﮨﻤﺴﻔﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻝ ﮔﺮﻓﺘﮧ ﺭﮨﺎ
ﮐﮧ ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﭘﺮ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﺍﺣﺘﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ

اِﺩﮬﺮ اُﺩﮬﺮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺁﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺭﮨﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺨﻦ ﮐﺎ ﻣﮕﺮ ﻣﺮﮐﺰﯼ ﺧﯿﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ

ﻭﮦ ﭘﯿﺮﮨﻦ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﺟﺴﻢ ﻭ ﺟﺎﮞ ﺭﮨﯽ ﻣﯿﺮﯼ
ﮐﮧ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﯿﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺳﻢ ﺗﮭﺎ حسبِ ﺣﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ

ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻤﺮ ﺍﮔﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﮯ ﺯﻏﻢ ﺩﯾﮯ
ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺯﺧﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﻣﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ

ﯾﮧ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﺎ ﺍﺛﺎﺛﮧ اُﺳﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺗﻮ ﮨﮯ
ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﻓﺎﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﭼﻨﺪ ﺳﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ

"ﻓﺮﺍﺯ" ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺳﭙﺮﺩﮔﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﺯ ﻓﺮﻕ ﺗﺎ ﺑﻘﺪمِ ﺧﻮاہشِ ﻭﺻﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ

احمد فراز
دھوپ میں بارش ہوتے دیکھ کے
حیرت کرنے والے
شائد تو نے میری ہنسی کو
چھو کر
کبھی نہیں‌ دیکھا!

پروین شاکر
آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ
عمر گزری تجھے دیکھے ہوئے بہلائے ہوئے
یاد ہے؟
ہم تجھے دل مانتے تھے
اپنے سینے میں مچلتا ہوا ضدی بچہ
تیرے ہر ناز کو انگلی سے پکڑ کر اکثر
نت نئے خواب کے بازار میں لے آتے تھے
تیرے ہر نخرے کی فرمائش پر
ایک جیون کہ تمناؤں کی بینائی سے
ھم دیکھتے تھکتے ہی نہ تھے
سوچتے تھے ایک چھوٹا سا نيا گھر
نيا ماحول محبت کی فضا
ھم دونوں
اور کسی بات پر تکیوں سے لڑائی اپنی
پھر لڑائی میں کبھی ہنستے ہوئے رو پڑنا
اور کبھی روتے روتے ہنس پڑنا
اور تھک ہار کے گر پڑنے کا مصوم خوش بخش خیال
یاد ہے؟
ہم تجھے سکھ جانتے تھے
رات ہنس پڑتی تھی بےساخته درشن سے تیرے
دن تیری دوری سے رو پڑتا تھا
یاد ہے؟
ہم تجھے جاں کہتے تھے
تیری خاموشی سے ہم مرجاتے
تیری آواز سے جی اٹھتے تھے
تجھ کو چھو لینے سے اک زندگی
آ جاتی تھی شریانوں میں
تھام لینے سے کوئی شہر سا بس جاتا تھا ويرانوں میں
یاد ہے؟
ہم تجھے ملنے کے لیے وقت سے پہلے پہنچ جاتے تھے
اور ملاقات کے بعد ہم بہت دیر سے گھر آتے
تو کہتے کہ ہمیں کچھ نہ کہو ہم بہت دور سے گھر آئے ہیں
اس قدر دور سے آئے ہیں کہ شاید ہی کوئی آ پائے
یاد ہے؟
ہم تجھے بھگوان سمجھتے تھے مگر کفر سے ڈر جاتے تھے
تیرے چھن جانے کا ڈر ٹھیک سے رکھتا تھا مسلمان ہمیں
آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ
تیرے بھولے ھوئے رستوں پہ
لیے پھرتا ہے ایمان ہمیں
اور کہتا ہے کہ پہچان ہمیں
یاد ہے
ہم تجھے ایمان کہا کرتے تھے!


فرحت عباس شاہ
رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے
بات بھی محبت کی
گھات کی ضرورت ہے
گھات بھی محبت کی
نرم گرم خاموشی
سہج سہج سرگوشی
چور چور دروازے
کون چھپ کے آیا ہے
آرزو نے جنگل میں
راستہ بنایا ہے
جھینپتے ہوئے آنگن
نے درخت سے مل کر
کچھ نہ کچھ چھپایا ہے
آسماں کی کھڑکی میں
سکھ بھری شرارت سے
چاند مسکرایا ہے
چاند مسکرایا ہے
چاندنی نہائی ہے
خوشبوؤں نے موسم میں
آگ سی لگائی ہے
عشق نے محبت کی
آنکھ چومنا چاہی
اور ہوا کے حلقے میں
شوخ سی نزاکت سے
شاخ کمسائی ہے
رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے
رات بھی محبت کی
بات کے سویرے میں
زندگی کے گھیرے میں
روح ٹمٹمائی ہے
وصل جھلملایا ہے
دل نے بند سینے میں
حشر سا اٹھایا ہے
کون چھپ کے آیا ہے

فرحت عباس شاہ


ہجر اور ڈوبتے سورج کی قسم
شام کے پار کوئی رہتا ہے
جسکی یادوں سے بندھی رہتی ہے دھڑکن دل کی
اور اسے دیکھ کے سینے میں یہی لگتا ہے
جیسے ویرانے میں بیمار کوئی رہتا ہے
ہم بہت چپ بھی نہیں رہ سکتے
دور تک ڈھلتے ہوئے سائے اڑاتے ہیں مذاق
اور کہتے ہیں کہ اے زرد ادواسی والے
تم تو خاموش شجر ہو کوئی
اور جھونکے سے بھی ڈر جاتے ہو
صبح ہوتی ہے تو امید سے جی اٹھتے ہو
شام ہوتی ہے تو مر جاتے ہو
ہجر اور ڈوبتے سورج کی قسم
دور تک ڈھلتے ہوئے سائے اڑاتے ہیں مذاق
شام کے پار کوئی رہتا ہے

فرحت عباس شاہ
سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے

ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی!
ہاں، ہم ہی کاربندِ اُصولِ وفا نہ تھے

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بُھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے

کیوں دادِ غم ہمیں نے طلب کی، بُرا کیا
ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے

گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
کیوں محوِ مدح خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے، بہت لادوا نہ تھے

لب پر ہے تلخیِ مئے ایّام، ورنہ فیض
ہم تلخیِ کلام پہ مائل ذرا نہ تھے

فیض احمد فیض
وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں

تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں

پھول دامن میں چند رکھ لیجئے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں

زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں

دیکھنے والا اک نہیں ملتا
آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں

جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اُف! وہ کتنے امیر ہوتے ہیں

جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو
قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں

ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن
غم بڑے دلپذیر ہوتے ہیں

اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

 عبدالحمید عدم
شام بالوں میں تو آنکھوں میں سحر رکھتا ہے
وہ بدلتے ہوئے موسم پہ نظر رکھتا ہے

تم پسِ عہدِ وفا کشتۂ غم مت ہونا
کون پوچھے گا تمہیں کون خبر رکھتا ہے

دھیان تیرا جو بھٹکتا ہے سرِ دشتِ خیال
اک جنوں ساز محبت کا اثر رکھتا ہے

باس رکھتا ہے وہ دامن میں ہر اک موسم کی
اپنے دل سے جو ہواؤں کا گزر رکھتا ہے

بس اسی کارِ مخالف نے بگاڑا منظر
ہم اِدھر رکھتے ہیں منظر، وہ اُدھر رکھتا ہے

ہم نے مانا کہ محبت نہیں اس کو اے سعد کوئی
احساس تو دل میں وہ مگر رکھتا ہے

سعد اللہ شاہ

Friday, December 12, 2014

کہاں وہ نیلم پری گئی تھی
محبتوں کے حسین دن تھے
رفاقتوں کا حسیں زمانہ
وہ جب بھی کالج کے راستوں پر قدم اٹھاتی
تو اُس کی آہٹ سے کتنی مانوس دھڑکنوں کا نظام چلتا
وہ جب کتابوں کو اپنے سینے کے ساتھ رکھے ہوئے
کرش ہال سے گزرتی
تو اُس کی زلفوں کی ایک جنبش پہ
لاکھ دِل تھے جو رقص کرتے
وہ جب کبھی کھلکھلا کے ہنستی
تو نا اُمیدی کے دھُندلکوں میں
محبتوں کے دیے جلاتی
وہ جس طرف بھی نظر اُٹھاتی
ہزار دِل تہہ و بالا کرتی
گئے وہ دن پھر، گئی وہ راتیں
نئے وہ دن پھر، نئی وہ راتیں
سو ایک دن ہم بچھڑ گئے تھے
سمے کا ساگر رَواں دَواں تھا
بدلتے موسم نے مجھ کو سب کچھ بھلا دیا تھا
کئی برس بعد کل اچانک مجھے ملی تو
اُداس چہرہ، سپاٹ لہجہ
نہ وہ اَدائیں، نہ وہ تبسم
سمے کی دیمک حسین پیکر کو کھا گئی تھی
وہ وقت کے ساتھ ساتھ کتنا بدل گئی تھی
کہاں وہ نیلم پری گئی تھی

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...