یہ میرا شہر صحرا صفت ،دہشت خو
جس کے رستوں کی مٹی میری آبرو
جس کی گلیاں لکیریں میرے بخت کی
جس کے ذرے مہ و مہر سے قیمتی
یہ وہی شہر ہے ........اجنبی دیکھنا
جس کی چاہت تعزیر میں عمر بھر
میری آوارگی کے فسانے بنے ....!
جس کی خاطر میرے ہم سخن ہمسفر
بے سبب تہمتوں کے نشانے بنے
جس کی بخشش کی تاثر کے ذائقے
میری تشہیر کو تازیانے بنے
میری دیوانگی نے تراشا جسے
وہ سیہ پوش لمحے زمانے بنے
اجنبی دیکھنا یہ وہی شہر ہے .؟
جس کی جلتی ہوئی دوپہر میں سدا
خواب بنتی رہی نوجوانی میری
جس کے ہر موڑ پر راکھہ کے ڈھیر میں
دفن ہوتی رہی ہر کہانی میری
جس کی پر ہول راتوں کی محراب میں
میری غزلوں کے مہتاب جلتے رہے
جس کی یخ بستہ صبحوں کے اصرار پر
میرے آنسو ، شراروں میں ڈھلتے رہے
یہ وہی شہر ہے جس کے بازار میں
بار ہا میرا پندار بیچا.............. گیا
موسم قحط کو ٹالنے کے لئے ........!
میرے دامن کا ہر تار بیچا ........گیا
اجنبی دیکھنا ................دیکھنا اجنبی
اپنے صحرا صفت شہر میں آج پھر
میں دریدہ بدن .............میں بریدہ قبا
در بدر خواہشوں کی کٹی انگلیاں
ریزہ ریزہ مہ و سال کے ذائقے
ہانپتے کانپتے دل کی شوریدگی
عمر بھر کی کمائی ہوئی شہرتیں
لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی
ناچتی تہمتوں کی کھلی وحشتیں
لب پہ مجروح لفظوں کی چھبتی تھکن
تن پہ یاقوت زخموں کے تمغے لئے
سر جھکائے ہوۓ راکھہ کے ڈھیر پر
سوچتا ہوں کہ ہاں یہ وہی شہر ہے
جس سے منسوب ہے میرا نام و نسب
میرا فن،میری تخلیق،،،،، ،میرا ادب
شورش چشم نم ........نوحہ زیر لب
میں مگر آج اس شہر کی بھیڑ میں
صورت موج صحرا اکیلا بہت
میرے چہرے پہ کوئی گواہی نہیں
کچھہ بھی حاصل میرا جز تباہی نہیں
یوں بھی ہے کل جہاں تھا میں مسند نشیں
اس جگہ خیمہ زن اب نئے لوگ
میرے چاروں طرف اب نئے لوگ ہیں
خود سے آباد کر قریہ شب مجھے
کوئی پہچانتا ہی نہی اب ..........مجھے
دل میں چبھتی ہوئی درد کی لہر ہے
میرے سچ کا صلہ ساغر زہر ہے
سانس لینا یہاں جبر ہے قہر ہے
اجنبی دیکھنا یہ وہی شہر ہے ....؟؟
یہ وہی شہر ہے
اجنبی دیکھنا