Thursday, 29 January 2015

Mujhay gila hai

ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻠﮧ ﮨﮯ
ﻋﻈﯿﻢ ﺧﺎﻟﻖ ! ۔۔۔
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﮔﻠﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻠﮧ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﺮﺗﮯ
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﮐﻤﯽ ﺗﻮ ﻧﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯼ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﯾﻮﮞ ۔۔۔ ﺟﻮ ﺭَﺩ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﭘﮧ ﺭَﺩ ﮬﻮ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﮔﺬﺭﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺧﺒﺮ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻠﮧ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﻦ ﭘﺮ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻧﮕﺎﮦ ﮈﺍﻟﯽ
ﻭﮦ ﺗﯿﺮﮮ ﻓﻦ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﭨﮭﮩﺮﮮ
ﮨﺰﺍﺭ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺎﻝ ﭨﮭﮩﺮﮮ
ﻣﮕﺮ ﺍﮮ ﺧﺎﻟﻖ !۔۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﮬﺎﺗﮭﻮﮞ ﮨﯽ
ﺗﯿﺮﮮ ﻓﻦ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺑﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮬﻮﮞ
ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻠﮧ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻭﮦ ﻟﻔﻆ ﺑﺨﺸﮯ
ﺟﻮ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺏ
ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﮟ ﺗﻮ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﺩﮬﮍﮐﻦ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﮐﺘﻨﺎ ﺳﺘﻢ ﮨﮯ ﺧﺎﻟﻖ ! ۔۔۔۔
ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﮐﻮ
ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﭘﺎ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮬﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮬﻮﺗﺎ
ﻋﻈﯿﻢ ﺧﺎﻟﻖ ! ۔۔۔ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮬﻮﺗﺎ
ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻃﺮ ﺍﺩﺍﺱ ﺟﺎﮌﮮ ﮐﯽ ﺳﺮﺩ
ﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺭَﺗﺠﮕﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﺬﺍﺏ ﺳﮩﺘﺎ
ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺼﮯ ﮐﮯ ﺯﺧﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﮕﺮ ﭘﮧ ﻟﯿﺘﺎ
ﺟﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺷﮏ ﭘﺎﺗﺎ
ﺗﻮ ﺧﻮﻥ ﺭﻭﺗﺎ
ﺟﺪﺍﺋﯽ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﺩﺍﺱ ﮐﺮﺗﯽ
ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﺮﻭﮞ ﺍﺩﺍﺱ ﺭﮬﺘﺎ
ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻠﮧ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﮐﺜﺮ
ﺍﻟﺠﮫ ﭼﮑﺎ ﮬﻮﮞ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﭘﺎ ﮨﮯ

Tum Zinda ho

سانحہ پشاور پر لکھی گئی نظم

تم زندہ ہو
جب تک دنیا باقی ہے تم زندہ ہو
اے میرے وطن کے شہزادو، تم زندہ ہو
خوشبو کی طرح اے پھولو، تم زندہ ہو
ہر ماں کی پرنم آنکھوں میں
ہر باپ کے ٹوٹے خوابوں میں
ہر بہن کی الجھی سانوں میں
ہر بھائی کی بکھری یادوں میں
تم زندہ ہو۔۔ تم زندہ ہو
ہم تم کو بھول نہیں سکتے
یہ یاد ہی اب تو جیون ہے
ہر دل میں تمہاری خوشبو ہے
ہر آنکھ تمہارا مسکن ہے
جن کو بھی شہادت مل جائے
وہ لوگ امر ہو جاتے ہیں
یادوں کے چمن میں کھیلتے ہیں
خوشبو کا سفر ہو جاتے ہیں
تم بجھے نہیں ہو، روشن ہو
ہر دل کی تم ہی دھڑکن ہو
کل تک تو بس ایک ہی گھر کے باسی تھے
اب ہر اک گھر میں بستے ہو
تم زندہ ہو
اے میرے وطن کے شہزادو، تم زندہ ہو

امجد اسلام امجد

(اس نظم کا بنیادی خیال اور استعادہ اس قرانی آیت سے مستعار ہے کہ شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں)

Tera Kehna hai

تیرا کہنا ھے بھُلا دوں تجھ کو 
کام مشکل ھے مگر کر دوں گا

Bahot Mila na mila, Zindagi sy gham Kiya hai

بہت مِلا نہ مِلا، زندگی سے غم کیا ہے
متاعِ درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے.

ہم ایک عمر سے واقف ہیں، اب نہ سمجھاؤ
کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں، ستم کیا ہے

کرے نہ جگ میں الاؤ تو شعر کس مصرف
کرے نہ شہر میں جل تھل تو چشمِ نم کیا ہے

لحاظ میں کوئی کچھ دور ساتھ چلتا ہے
وگرنہ دہر میں اب خضر کا بھرم کیا ہے

اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے

سجاؤ بزم، غزل گاؤ، جام تازہ کرو
"بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے"

نومبر، 1984ء
فیض احمد فیض

Udaaas Kamra Humari Halat py Hans raha hai

اداس کمرہ ہماری حالت پہ ہنس رہا ہے
گھڑی کی سوئیاں تڑپ تڑپ کر
زوالِ شب کو بڑھا رہی ہیں
ہم اپنے حصے کے زخم لے کر
مہیب راہوں میں کھو رہے ہیں
اکیلے پن کا عذاب ہم پر اتر رہا ہے
جو ہو سکے تو تلاش کر لو
گزرنے والے ہر اجنبی سے ہمارا پوچھو
ہمیں پکارو کہ ہم کہاں ہیں

عابد علی عابد

Kabhi Jab me nahi hoon ga by Aatif Saeed

کبھی جب میں نہیں ہوں گا
تمہیں سب یاد آئے گا
وہ میری بے کراں چاہت
تمہارے نام کی عادت
وہ میرے عشق کی شدت
وصال و ہجر کی لذت
تمہاری ہر ادا کو شاعری کا رنگ دے دینا
خود اپنی خواہشوں کو بے بسی کا رنگ دے دینا
تمہیں سب یاد آئے گا
وہ میری آنکھ کا نم بھی
وفاؤں کا وہ موسم بھی
جنوں خیزی کا عالم بھی
مری ہر اک خوشی غم بھی
مرا وہ مسکرا کر درد کو دل سے لگا لینا
تمہاری خواب سی آنکھوں کا ہر آنسو چرا لینا
تمہیں سب یاد آئے گا
تمہاری سوچ میں رہنا
تمہاری بے رخی سہنا
بُھلا کر رنجشیں ساری
فقط "اپنا" تمہیں کہنا
تمہارے نام کو تسبیح کی صورت بنا لینا
تمہارے ذکر سے دل کا ہر اک گوشہ سجا لینا
ابھی تو مسکرا کر تم مری باتوں کو سنتی ہو
مگر یہ جان لو جاناں!
تمہیں سب یاد آئے گا
کبھی جو میں نہیں ہوں گا

عاطف سعید

Aana Ko Jeet janay DO

انا کو جیت جانے دو
سُنو، اب واپسی کے راستے مسدود ھیں سارے
کہاں خوشبو کا جھونکا، رنگ باقی ھے گلابوں میں
ستاروں میں بھی کوئی روشنی کب ھے؟
بچھڑنے سے جو سچ پوچھو کہیں کوئی کمی کب ھے
محبت کے سویرے شام اوڑھے سو چُکے کب کے،
وفا کے اِس جنازے پر بھی ھم تم رو چُکے کب کے
چلو جو پل بچے ھیں
اِن کو ہنس کر بیت جانے دو
انا کو جیت جانے دو

Bicharnay Walay

بچھڑنے والے 
چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ ۔۔۔  
کہ کتنی شامیں اداس آنکھوں میں کاٹنی ہیں ۔۔ ؟
کہ کتنی صبحیں اکیلے پن میں گزارنی ہیں ۔۔۔ ؟
بتا کے جاؤ ۔۔۔  
کہ کتنے سورج عذاب رستوں کو دیکھنا ہے۔۔۔؟ 
کہ کتنے مہتاب سرد راتوں کی وسعتوں سے نکالنے ہیں ۔۔۔ ؟
بتا کے جاؤ ۔۔۔  
کہ چاند راتوں میں وقت کیسے گزارنا ہے۔۔۔ ؟ 
خاموش لمحوں میں تجھ کو کتنا پکارنا ہے ۔۔۔۔۔؟ 
بتا کے جاؤ ۔۔۔ 
کہ کتنے لمحے شمار کرنے ہیں ہجرتوں کے ۔۔۔۔ ؟
کہ کتنے موسم اک ایک کر کے جدائیوں میں گزارنے ہیں ۔۔۔؟؟ بتا کے جاؤ ۔۔۔ 
کہ پنچھیوں نے اکیلے پن کا سبب جو پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کیا کہوں گا ۔ ۔ ۔ ؟؟ کسی نے رستے میں روک کر جو مجھ سے پوچھا ۔۔۔۔۔
کہ پچھلے موسم میں جو اجنبی تھا ۔ ۔ ۔ !!۔ کہاں گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟ تو کیا کہوں گا ۔ ۔ ۔ ۔؟
بتا کے جاؤ 
میں کس سے تیرا گلہ کروں گا ۔۔۔۔۔ ؟
بچھڑ کے تجھ سے حبیب کس سے ملا کروں گا ۔۔۔۔۔ ؟ 
بتا کے جاؤ کہ آنکھ برسی تو کون موتی چنا کرے گا۔۔۔۔۔ ؟
اداس لمحوں میں دل کی دھڑکن سنا کرے گا ؟ 
بتا کے جاؤ کہ موسموں کو پیام دینے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟یا نہیں ۔۔۔۔۔ ؟
فلک کو ، تاروں کو ، جگنوؤں کو سلام دینے ہیں ۔ ۔ ۔؟ یا نہیں ؟
بتا کے جاؤ ۔۔۔ 
کہ کس پہ ہے اعتبار کرنا۔۔۔۔۔ ؟ 
تو کس کی باتوں پہ بےنیازی کے سلسلے اختیار کرنا ۔۔۔۔۔ ؟
بتا کے جاؤ کہ اب رویوں کی چال کیا ہو ۔۔۔۔۔ ؟
جواب کیا ہو ؟۔ ۔ ۔ سوال کیا ہو ۔۔۔۔۔ ؟ عروج کیا ہو ؟ ۔ ۔ ۔ ، زوال کیا ہو۔۔۔۔۔ ؟
نگاہ ، رخسار ، زلف ، چہرہ . . نڈھال کیا ہو ۔۔۔۔۔ ؟
بتا کے جاؤ ۔۔۔ 
کہ میری حالت پہ چاندنی کھلکھلا پڑی تو میں کیا کروں گا ۔ ۔ ؟؟ 
بتا کے جاؤ ۔۔۔ 
کہ میری صورت پہ تیرگی مسکرا پڑی تو میں کیا کروں گا ۔ ۔ ۔ ؟؟
بتا کے جاؤ ۔۔۔ 
کہ تم کو کتنا پکارنا ہے ۔۔۔۔۔ ؟
بچھڑ کے تجھ سے یہ وقت کیسے گزارنا ہے ۔۔۔۔۔ ؟
اجاڑنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ نکھارنا ہے ۔۔۔۔۔ ؟
بدن کو کتنا سنوارنا ہے ۔ ۔ ۔ ؟
چلے جو ہو تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!! بتا کے جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Chal Umr Ki ghatri Kholtay hain

چل عمر کی گٹھڑی کھولتے ہیں 
اور دیکھتے ہیں
ان سانسوں کی تضحِیک میں سے 
اس ماہ و سال کی بِھیک میں سے
اس ضرب، جمع، تفرِیق میں سے
کیا حاصل ہے، کیا لاحاصل
چل گٹھڑی کھول کے لمحوں کو 
کچھ وصل اور ہجر کے برسوں کو
کچھ گِیتوں کو، کچھ اشکوں کو
پھر دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں
یہ درد بھری سوغات ہے جو
یہ جِیون کی خیرات ہے جو
اِک لمبی کالی رات ہے جو
سب اپنے پاس ہی کیوں آئی
یہ ہم کو راس ہی کیوں آئی
یہ دیکھ یہ لمحہ میرا تھا، جو اور کسی کے نام ہوا 
یہ دیکھ یہ صبح کا منظر تھا، جو صبح سے مثلِ شام ہوا 
اور یہ میرا آغاز پڑا جو بدتر از انجام ہوا
اب چھوڑ اسے، آ دیکھ اِدھر
یہ حَبس پڑا اور ساتھ اس کے 
کچھ اُکھڑی اُکھڑی سانسیں ہیں
اِک دُھندلا دُھندلا منظر ہے 
اور اُجڑی اُجڑی آنکھیں ہیں
یہ جھُلسے ہوئے کچھ خواب ہیں جن کے ساتھ کوئی تعبیر نہیں
یہ دیکھ حنائی ہاتھ بھی ہیں، پر وصل کی ایک لکیر نہیں
دو نازک ہونٹ گلاب سے ہیں پر داد جو دے وہ میرؔ نہیں
اک اسم محبت والا ہے اور اس کی بھی تفسیر نہیں
بس اتنی ہمت تھی تجھ میں
بس تیری آنکھیں بھیگ گئیں
ابھی اور بہت سے لمحے ہیں 
ابھی اور بہت سی باتیں ہیں
ابھی ہِجر بھرا اِک ہُجرہ ہے
ابھی درد بھری اِک کُٹیا ہے
چل چھوڑ اس درد کہانی کو 
روک آنکھ سے بہتے پانی کو
آ ڈھونڈ کہیں اس گٹھڑی میں 
اِک ہِِجر آلود سا وعدہ ہے
وعدہ بھی سیدھا سادہ ہے
بس اپنے اپنے رستے پر
چلتے رہنے کا ارادہ ہے
تُو دیکھ اگر وہ مِل جائے
ممکن ہے زخم بھی سِل جائے 
ورنہ ہم ہِِجر جو کاٹ چکے
وہ اس جیون سے زیادہ ہے

Bahot Masroof rehty ho

بہت مصروف رہتے ہو
نہیں فرصت ذرا تم کو
بہت سے دوست ایسے ہیں
جنہیں ملنا ملانا ہے
کئی دنیا کی رسمیں ہیں
جنہیں تم نے نبھانا ہے
ادھورے کام ہیں ڈھیروں
جنہیں اب ختم کرنا ہے
مگر کیا ان ضروری کاموں کی فہرست میں تم نے
مجھے ملنا، مجھے تکنا نہیں لکھا
کیا ان کاموں کے آخر سے بھی آخر میں
میرا درجہ نہیں آتا
بہت دشوار ہے میرے لیے اس کرب کو سہنا
نہیں ممکن مگر اس درد کا اب دل میں ہی رہنا
اگر فرصت ہو تو سوچو
جنہیں پوروں سے چنتے تھے
وہ آنسو رُلتے جاتے ہیں
جسے تم جان کہتے تھے
اگر وہ جان ہی نا ہو
تو پھر پھولوں کی خوشبو لے کر آنا بھی تو کیا آنا
کہ مٹی کی لحد پر بیٹھ کر واپس بلانے سے 
کوئی بھی آ نہیں جاتا
جو دنیا میں کسی کا غم نہ بانٹے، ساتھی وہ کیسا
کہ پلکوں کی گھنی جھالر کے گرنے پر
اسے رونا، بلانا ، وقت کو الزام دے دینا
بڑی فرسودہ باتیں ہیں
کہ تم تو جانتے ہوگے
گرا آنسو، گیا لمحہ اور پلکوں جا گرا پردہ
دوبارہ مڑ نہیں سکتا

Tumhara aur mera Taluk

تمھارا اور میرا وہ تعلق ہے 
جو کسی کتاب میں درج نہیں 
تمھاری آواز اور میری سماعت نے ہم دونوں کے درمیاں ایک ربط قائم کیا ہے 
ہمارے درمیاں
کوئی رشتہ نہیں ہے 
پھر بھی ہم ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں!
تم میرے لئے
بہتے دریا کی مانند ہو
جو ہر رشتے کو سیراب کرتا جاتا ہے
اور میں تمھارے لئے 
ایک موج کی مانند 
جو دریا سے الگ ہو جاۓ تو تشنگی اسکا مقدر بن جاتی ہے! 
اس لئے میری دعا ہے کے 
میری تم سے چاہت کو 
کبھی زوال نہ آۓ

Jugnu Lamhy

جگنو لمحے

یه چند جگنو سے خواب لمحے
تمھارے ہاتھوں میں آج بند ہیں
ذرا ہتھیلی کو کھول دیکھو
یہ اڑ چلیں گے
یہ چند جگنو سے خواب لمحے
تمھارے رب نے عطا کئے ہیں
تمھیں جو پانا ہے آج پا لو
جو کرنا ہے تم ابھی سے کر لو
یہ جگنو لمحے پکارتے ہیں 
کوئی بھی رت لوٹ کر نہ آئی
کبھی کوئی سال کیا ہے ٹھرا
یا بیتا لمحہ کبھی ہے لوٹا
یہ زندگانی
ہے اک پہر یا پہر کا حصہ
وقت کی آغوش میں
تمھاری نصرت کے سیپ موتی
مچل رہے ہیں
یہ جگنو لمحے پکارتے ہیں
کہ اب تو سوچو
یہ جگنو لمحے رہیں گے خالی
یا
کہ تم وہی بدنصیب ہو گے
کہ جس نے سونے کے دام دے کر
خریدی مٹی
جو اڑ چلے گی

Kiya Ajeeb Rishta hai

کیا عجب رشتہ ہے
درد اور محبت میں
جس قدر محبتوں میں شدتیں مہکتی ہیں
درد بڑھتا جاتا ہے
کیا عجیب رشتہ ہے
خواب اور حقیقت میں
جس قدر بھی اچھے ہوں
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
اور یہ حقیقت ہے
کیا عجیب رشتہ ہے
آنسوؤں کا بارش سے 
ہجر کی کہانی جب آنسوؤں سی لکھی ہو
بارشیں نہیں رکتیں
کیا عجیب رشتہ ہے
راستوں کا منزل سے
دل سے گر نہ چلتے ہوں
لاکھ راستے بدلیں
منزلیں نہیں ملتیں
کیا عجیب رشتہ ہے
لفظ کا خیالوں سے
میں تیرے خیالوں میں
گم اگر نہیں ہوتی
لفظ ہی نہیں جڑتے
کیا عجیب رشتہ ہے
دل سے تیری چاہت کا
لاکھ روکنا چاہوں
دل کو تیری چاہت سے
دل میری نہیں سنتا
کیا عجیب رشتہ ہے
موت ، زندگی کا بھی
دل سے شاعری کا بھی
دھڑکنوں سے سانسوں کا
مجھ سے تیری آنکھوں کا
تجھ سے میری باتوں کا
روشنی سے راتوں کا
کچھ سمجھ نہیں آتا
ضبط آخری حد تک
آزماۓ جاتے ہیں
اور ایسے رشتوں کو
ہم نبھاۓ جاتے ہیں

Sadq-e-Safai By ALi Zariyoun

" صدق صفائی"


"دھیان سے بیٹا
سڑک کنارے گٹر کا ڈھکّن کھلا ھوا ھے
ڈھکّن کوئی لے بھاگا ھے
دو اینٹیں تو وہاں کسی نے رکھ دی ھیں
پر شام کا وقت ھے
اور گلی میں
مَیں نے تم کو پہلی بار ھی دیکھا ھے
دھیان سے جانا "
اُس نے بزرگ کو پیار سے دیکھا 
سر کو تابع فرمانی کی جنبش دے کر شکریہ بولا
اور کنارے سے کچھ ھٹ کر چلتے چلتے
گٹر پہ پہنچا
کھڑے کھڑے ھی اندر جھانکا
دیکھوں تو کتنا گہرا ھے 
نظر گٹر کے اندر پہنچی
اور صدا سینے سے آئی
" کیا دیکھا ھے ؟
گٹر کے اندر یا من اندر ؟؟
گٹر کے گندے پانی سے بدبو آتی ھَے ؟؟
وہ جو ایک گٹر سوچوں کا کھلا ھوا ھے 
اس کا سوچا ؟؟
کب سے یونہی کھلا پڑا ھے
کیسی کیسی روشن سوچیں اور ارادے
نفرت اور تعصب کے اس مین ھول میں گر کے خود کو ھار چکے ھیں
اُس سے کبھی بدبو نہیں آئی ؟؟"
سوچ نہیں تھی
برقی رو تھی
جس نے اس کے پورے وجود کو توڑ دیا تھا
اس سے قبل کہ وہ رو پڑتا
شانے پر اک نرم شفیق سی دستک جاگی
بابا جی نے پیار سے پوچھا
" کیا ھوا بیٹا ؟
کب سے یہیں پر کھڑے ھوئے ھو 
گھر نئیں جانا ؟؟"
اُس نے بزرگ کے ھاتھ کو چوما
پیار سے بولا
" جی بابا جی 
گھر جانا ھے
سوچ رھا ھوں
برگد اور بزرگ بھی کتنے پیارے سوھنے ھوتے ھیں
میاں محمّد بخش کی باتیں
خسرو جی کے پریم کی ٹھنڈک
خواجہ فرید کے سوز کا مرھم
اور کبیر کے دوھوں کا رس 
سب کچھ انت اخیر سا کیوں ھے
آخر عشق فقیر سا کیوں ھَے
صاف سمجھ میں آج آیا ھے
یہ سب اتنے پیارے کیوں تھے
اِن کے اندر "شر" جو نہیں تھے
اِن کے من میں گٹر نہیں تھے
جی بابا جی
میں نے سنا تھا
گہرائی میں جھانکنے والے اکثر خود کو پا جاتے ھیں
اب گہرائی دریا کی ھو یا ھو گٹر کی
اپنی اپنی قسمت ھے بس
گھر جاتا ھوں"
بابا جی نے پیار سے اُس کا ماتھا چوم کے اتنا بولا 
خیر ھو بیٹا ۔۔۔۔ !! 

علی زریون

Facebok par ata hoon

ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﭘﮧ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺟﮭﻮﭨﮯ ﺳﭽﮯ ﻭﻋﺪﻭﮞ ﺳﮯ
ﭼﮑﻨﯽ ﭼﭙﮍﯼ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺳﮯ
ﺩﻭﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺑﮯ ﺣﺠﺎﺏ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﺳﮯ
ﻭﺍﻝ ﮐﻮ ﺳﺠﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﻟﭩﯽ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﭘﮧ
ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﺑﺠﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﻟﻄﯿﻔﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﯿﭻ ﻣﯿﮟ ﺣﺪﯾﺜﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﭘﻞ ﺗﻮ ﺁﯾﺖ ﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﮨﮯ
ﮐﺐ ﺍﺫﺍﻥ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﭽﮫ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ
ﺩﻋﻮﮮ ﺟﯿﻨﮯ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ
ﻋﺸﻖ ﻣﺼﻄﻔﯽ ( ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ) ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﮐﮩﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﻓﺎﺻﻠﮧ ﺧﻼﺅﮞ ﺳﺎ
ﻓﻠﺴﻔﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ
ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ
ﻓﯿﺲ ﺑُﮏ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﯽ
ﺍِﮎ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮ ﻧﮕﺮﯼ ﮨﮯ
ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ ﮐﺎ ﻣﯿﻠﮧ ﮨﮯ
ﻓﯿﺲ ﺑُﮏ ﮐﮯ ﻣﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ
ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﺑِﮑﮭﺮﮮ ﮨﯿﮟ
ﻏﺰﻧﻮﯼ ﭘُﺠﺎﺭﯼ ﮨﯿﮟ
ﭘﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﻡ ﺭﺍﻡ ﮨﮯ
ﭘﻞ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ
ﻓﻠﺴﻔﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ
ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ
ﻓﯿﺲ ﺑُﮏ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﯽ
ﺍِﮎ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮ ﻧﮕﺮﯼ ﮨﮯ
ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ ﮐﺎ ﻣﯿﻠﮧ ﮨﮯ

Suno Aay Mashraki Larki

ﺳﻨﻮ ﺍﮮ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﻟﮍﮐﯽ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺗﮑﻨﺎ
ﻧﮧ ﺑﻨﯿﺎﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﭨﮭﮑﺮﺍﻧﺎ
ﻭﮨﺎﮞ ﮐﮯ ﮐﮭﻮﮐﮭﻠﮯ ﺭﺷﺘﮯ
ﺗﻘﺪﺱ ﭼﮭﯿﻦ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ۔ ﭘﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ
ﺳﻤﮯ ﮐﯽ ﭼﻠﺘﯽ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﮐﺎ
ﺛﻘﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﻟﺒﺎﺩﮮ ﻣﯿﮟ
ﺗﻤﺪﻥ ﮐﮯ ﺑﮑﮭﯿﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﻮﺱ ﮐﯽ ﺭﺍﺝ ﺩﺍﺭﯼ ﮨﮯ
ﻋﺠﺐ ﮨﯽ ﮐﮭﯿﻞ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ
ﺳﻨﻮ ﺍﮮ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﻟﮍﮐﯽ
ﻭﻓﺎ ﺗﯿﺮﺍ ﺣﺴﯿﮟ ﮔﮩﻨﺎ
ﺣﯿﺎ ﺗﯿﺮﯼ ﺣﻨﺎ ﺑﻨﺪﯼ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ
ﺣﺴﯿﮟ ﺭﯾﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ
ﺳﻨﻮ ﺍﮮ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﻟﮍﮐﯽ

Tamaam gham hai

تمام غم ہے

سوال غم ہے
جواب غم ہے
ہزار سالوں میں جو مکمل ہوئی
محبت کی خون رنگی کتاب غم ہے
تمہارے لب پہ جو مسکراہٹ ہے
میرے لب پہ جو آشنائی کی منزلوں کا سفر لکھا ہے
یہ سارا غم ہے
کسی کے تن کی سندرتا غم ہے
کسی نظر کی گُنجلتا غم ہے
محبتوں کے سمندروں میں
اُترتی خوش رنگ سیڑھیوں پر
یہ لڑکیوں کی قطار غم ہے
کفن میں لپٹی دُلہن کی آنکھوں میں
آنسوؤں کا شمار غم ہے
وہ لڑکیاں، لڑکے، عورتیں، مرد غم ہی غم ہیں
جو میری نظموں کے جنگلوں کے
بے سمت رستوں پہ کھو گئے ہیں
وہ سالخوردہ حسین عورت بھی غم کا چہرہ بنی ہوئی ہے
جسے محبت نے روشنی کی نوید دی تھی
وہ جس نے وعدوں سے اپنی منزل کشید کی تھی
وہ گاؤں کی کچی پکی راہیں
وہ میری ماں کی نحیف بانہیں بھی غم ہی غم تھیں
کہ میرا بچپن تو غم کے لمبے سفر کی
غمگین ابتدا تھی
جوانی غم کی کہانی بن کر
کچھ ایسے لفظوں میں ڈھل گئی ہے
کہ غم کی تشہیر ہو گئی ہے
ابھی ابھی یہ جو شوخ سائے
حسین لمحوں کو چن رہے تھے
یہ غم کی تاریخ بن رہے تھے
یہ فلسفہ عقل و عشق و عرفاں
مجاز، اعجاز اور حقیقت بھی سارے غم ہیں
میں ایک شاعر
میں ایک ساحر
میں آگہی کے عذاب میں گُم
سفر کا انجام جانتا ہوں
میں مانتا ہوں
کہ ہر خوشی کا امام غم ہے

Friday, 23 January 2015

Ab K Youn

ﺍﺏ ﮐﮯ ﯾﻮ ﮞ ﺑﮭﯽ ﺗﺮﯼ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﮑﻦ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ

ﺭﻧﮓ ﭘﮭﻮﭨﮯ ، ﮐﮩﯿﮟ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﯽ ﺭﺳﻦ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ

ﻣﻮﺕ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﮐﯽ ﺳﺎﻋﺖ ﺁﺋﯽ
ﺳﺎﻧﺲ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﮭﮑﻦ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ


ﺳﯿﻨۂ ﮔﻞ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﮑﮩﺖ ﺑﮭﯽ ﮔﺮﺍﮞ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﺗﮭﯽ
ﺗﯿﺮ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﮐﺮﻥ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ

ﺩِﻝ ﺷﮑﺴﮧ ﺗﻮ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﺍﺏ ﮐﮯ ﯾﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﺍﮎ ﺷﺎﺥِ ﺑﺪﻥ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ

ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮯ ﺭﺑﻂ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ
ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﻧﺠﯿﺮِ ﺳﺨﻦ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ

ﺍﮎ ﺷﻌﻠﮧ ﮐﮧ ﺗﮧِ ﺧﯿﻤۂ ﺟﺎﮞ ﻟﭙﮑﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﯾﮏ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﮧ ﺳﺮِ ﺻﺤﻦِ ﭼﻤﻦ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ

ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﮍﻧﮯ ﭘﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ
ﺍﮎ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺭﮦ ﻭ ﺭﺳﻢ ﮐﮩﻦ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ

ﻣﺮﮮ ﯾﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺗﺒﺴﻢ ﮐﯽ ﮐﺮﻥ ﻣﻘﺘﻞ ﻣﯿﮟ
ﻧﻮﮎِ ﻧﯿﺰﮦ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺯﯾﺮِ ﮐﻔﻦ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ

ﺭﯾﺰﮦ ﺭﯾﺰﮦ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮﺗﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﺮ ﺳﻮ ﻣﺤﺴﻦ
ﺷﯿﺸﮧ ﺷﯿﺸﮧ ﻣﺮﯼ ﺳﻨﮕﯿﻨﯽﺀ ﻓﻦ ﭨﻮﭨﯽ ﮨﮯ

ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ

Tark e Muhobat Kar Bethay

ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے

ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے

ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے


ڈوبتا سوُرج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے

صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں
اُس میں بچوں جیسی ضِد کرنے کی عادت اور بھی ہے

صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا، دل نے پھر محسوس کیا
اور بھی گہری چوٹ لگی ہے، درد میں شدّت اور بھی ہے

میری بھیگتی پلکوں پر جب اُس نے دونوں ہاتھ رکھے
پھر یہ بھید کھُلا اِن اشکوں کی کچھ قیمت اور بھی ہے

اُس کو گنوا کر محسن اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اور بھی ہے

محسن نقوی

December Mujhay Raas ata nahi

دسمبر مجھے راس آتا نہیں

(۱۹۹۵ء کی آخری نظم)

کئی سال گزرے
کئی سال بیتے
... شب و روز کی گردشوں کا تسلسل
دل و جاں میں سانسوں کی پَرتیں اُلٹتے ہوئے
زلزلوں کی طرح ہانپتا ہے!


چٹختے ہوئے خواب
آنکھوں کی نازک رَگیں چھیلتے ہیں
مگر میں ہر اِک سال کی گود میں جاگتی صبح کو
بے کراں چاہتوں سے اَٹی زندگی کی دُعا دے کے
اَب تک وہی " جستجو " کا سَفر کر رہا ہُوں

سفر زندگی ہے
سفر آگہی ہے
سفرآبلہ پائی کی داستاں ہے
سفر عمر بھی کی سُلگتی ہوئی خواہشوں کا دھواں ہے!

کئی سال گزرے
کئی سال بیتے!
مسلسل سفر کے خم و پیچ میں
سانس لیتی ہوئی زندگی تھک گئی ہے
کہ جذبوں کی گیلی زمینوں میں
بوئے ہوئے روزو شب کی ہر اک فصل اب" پک " گئی ہے

گزرتا ہوا سال بھی آخری ہچکیاں لے رہا ہے
میرے پیش و پَس
خوف، دہشت، اَجل، آگ، بارود کی مَوج
آبادیاں نوچ کر اپنے جبڑوں میں جکڑی ہوئی زندگی کو
درندوں کی صُورت
نِگلنے کی مشقوں میں مصروف تر ہے
ہر اک راستہ، موت کی رہ گزر ہے

گزرتا ہوا سال جیسے بھی گزرا
مگر سال کے آخری دِن
نہایت کٹھن ہیں
ہر اک سَمت لاشوں کے اَنبار
زخمی جنازوں کی لمبی قطاریں
کہاں تک کوئی دیکھ پائے؟
ہواؤں میں بارُود کی باس
خود اَمن کی نوحہ خواں ہے
کوئی چارہ گر، عصرِ حاضر کا کوئی مسیحا کہاں ہے؟

مرے ملنے والو!
نئے سال کی مُسکراتی ہوئی صبح ۔۔۔۔۔۔۔۔ گر ہاتھ آئے
تو مِلنا!!

کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں
یہ بجھتا ہُوا دل
دھڑکتا تو ہے
مسکراتا نہیں
دسمبر مجھے راس آتا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

(شاعر: محسن نقوی)

Ab apny Faislay par

اب اپنے فیصلے پر خُود اُلجھنے کیوں لگی ہوں
ذرا سی بات پر اتنا بکھر نے کیوں لگی ہوں

وہ جس موسم کی اب تک منتظر آنکھیں تھیں میری
اسی موسم سے اب میں اِتنا ڈرنے کیوں لگی ہوں


مُجھے نادیدہ رستوں پر سفر کا شوق بھی تھا
تھکن پاؤں سے لپٹی ہے تو مرنے کیوں لگی ہوں

مُجھے یہ چار دیواری کی رونق مار دے گی
مَیں اِک امکان تھی منزل کا مٹنے کیوں لگی ہوں

میں جس کو کم سے کم محسوس کرنا چاہتی تھی
اُسی کی بات کو اِتنا سمجھنے کیوں لگی ہوں

جو میرے دل کی گلیوں سے کبھی گُزرا نہیں تھا
اب اپنے ہاتھ سے خط اس کو لکھنے کیوں لگی ہوں

بدن کی راکھ تک بھی راستوں میں ناں بچے گی
برستی بارشوں میں یُوں سُلگنے کیوں لگی ہوں

وُہی سُورج ہے دُکھ کا پھر یہ ایسا کیا ہُوا ہے
میں پتھر تھی تو آخر اَب پگھلنے کیوں لگی ہوں

نوشی گیلانی

Tamaam Dukh hai

تمام دکه ہے


ہمیں خبر ہے 
تمام دکه ہے
یہ زندگی کو جو آسمانوں کی وسعتوں سے
ہزار صدیوں سے مل رہا ہے
پیام دکهہ ہے
جو کار زار زوال ہستی کو
دھوپ چھاؤں کی آہٹوں سے چلا رہا ہے
نظام دکه ہے


سحر تو اک مختصر سا غم ہے
طویل دن کی حویلیوں کے
جو راستوں میں ٹهہر گئی ہے
وہ شام دکه ہے
یہ شام دکه ہے
کہ اس کی شہ پر کئی دنوں سے
مسافران ابد کا ایسے فراق آثار راستوں پر
سفر تو خیر ایک المیہ ہے
قیام دکهہ ہے 
ہمیںخبر ہے تمام دکه ہے

یہ آس دکه ہے نراس دکه ہے 
اداسیوں کا لباس دکهہ ہے 
یہ تشنگی جو عذاب بن کر ٹهہر گئی ہے
بدن کے بوسیدہ ساحلوں پر
تو اس کا عہد دوام دکهہ ہے
یہ شور کرتی ہوا کا سارا خرام دکه ہے
ہمیں خبر ہے
تمام دکه ہے

یہ تم محبت نباہتے ہو
تو اس محبت کا نام دکه ہے
یہ وصل موسم جو اک مسلسل مغالطہ ہے
تو اس رفاقت کا نام دکهہ ہے
اور ایسی وحشت نما فضا میں
خموش رہنا بهی اک سزا ہے
مگر کسی سے کلام دکه ہے

ہمیں خبر ہے
تمام دکه ہے

نوشی گیلانی

15 Junvary

پندرہ جنوری


جنوریوں کی کتنی شامیں آئیں
آ کر بیت گئیں
دِل نے کوئ آہٹ، کوئ دستک بھی محسوس نہ کی
لیکن سات برس کے بعد
آج کی شام میں
جانے کیا ہے
دائیں آنکھ کا دایاں کونہ بھیگ گیا ہے

نوشی گیلانی

Last Wish

آخری خواہش۔۔۔۔


مِرے ساتھی
مِری یہ روح میرے جسم سے پرواز کر جائے
تو لوٹ آنا
مِری بے خواب راتوں کے عذابوں پر 
سسکتے شہر میں تم بھی
ذرا سی دیر کو رُکنا
مِرے بے نور ہونٹوں کی دُعاو ں پر
تم اپنی سرد پیشانی کا پتھر رکھ کے رو دینا
بس اتنی بات کہہ دینا۔۔۔!!!
”مجھے تم سے محبت ہے“

نوشی گیلانی

Woh Jo Lagti Thi Kanch Ki guriya

ڈھونڈنے جس میں زندگی نکلی

وہ اسی شخص کی گلی نکلی

وہ جو لگتی تھی کانچ کی گڑیا
ضرب پڑنے پہ آہنی نکلی

اس حویلی میں چاند ڈھلنے پر
ہر دریچے سے روشنی نکلی

وہ ہوا تو نہیں تھی لڑکی تھی
کس لیے اتنی سر پھری نکلی

نوشی گیلانی

Shayed

شاید


میں شاید تم کو یکسر بھولنے والا ہوں
شاید، جانِ جاں شاید
کہ اب تم مجھ کو پہلے سے زیادہ یاد آتی ہو
ہے دل غمگیں، بہت غمگیں
کہ اب تم یاد دل وارانہ آتی ہو
شمیم دور ماندہ ہو
بہت رنجیدہ ہو مجھ سے
مگر پھر بھی
مشامِ جاں میں میرے آشتی مندانہ آتی ہو
جدائی میں بلا کا التفاتِ محرمانہ ہے
قیامت کی خبر گیری ہے
بےحد ناز برداری کا عالم ہے
تمہارے رنگ مجھ میں اور گہرے ہوتے جاتے ہیں
میں ڈرتا ہوں
میرے احساس کے اس خواب کا انجام کیا ہوگا
یہ میرے اندرونِ ذات کے تاراج گر
جذبوں کے بیری وقت کی سازش نہ ہو کوئی
تمہارے اس طرح ہر لمحہ یاد آنے سے
دل سہما ہوا سا ہے
تو پھر تم کم ہی یاد آؤ
متاعِ دل، متاعِ جاں تو پھر تم کم ہی یاد آؤ
بہت کچھ بہہ گیا ہے سیلِ ماہ و سال میں اب تک
سبھی کچھ تو نہ بہہ جائے
کہ میرے پاس رہ بھی کیا گیا ہے
کچھ تو رہ جائے

جون ایلیا

Aay Shama e Ko e Janaan

اے شمعِ کوئے جاناں

ہے تیز ہوا ، مانا 
لَو اپنی بچا رکھنا ۔ رستوں پر نگاہ رکھنا
ایسی ہی کسی شب میں 
آئے گا یہاں کوئی ، کچھ زخم دکھانے کو
اِک ٹوٹا ہوا وعدہ ، مٹی سے اُٹھانے کو
پیروں پہ لہو اُس کے
آنکھوں میں دھواں ہوگا
چہرے کی دراڑوں میں 
بیتے ہوئے برسوں کا 
ایک ایک نشاں ہوگا 
بولے گا نہ کچھ لیکن ، فریاد کُناں ہوگا
اے شمعِ کوئے جاناں
وہ خاک بسر راہی --------- وہ سوختہ پروانہ 
جب آئے یہاں اُس کو مایوس نہ لوٹانا 
ہو تیز ہوا کتنی ، لَو اپنی بچا رکھنا
رستوں پہ نگاہ رکھنا -------- راہی کا پتا رکھنا
اِس بھید بھری چُپ میں اِک پھول نے کھلنا ہے !!
اُس نے انہی گلیوں میں ، اِک شخص سے ملنا ہے !!

( امجد اسلام امجد )
جب بھی گھر کی چھت پر جائیں ناز دکھانے آ جاتے ہیں 
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو چلانے آ جاتے ہیں

دن بھر جو سورج کے ڈر سے گلیوں میں چھُپ رہتے ہیں 
شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پرانے آ جاتے ہیں

جن لوگوں نے اُن کی طلب میں صحراؤں کی دھول اُڑائیں 
اب یہ حسیں اُن کی قبروں پر پھول چڑھانے آ جاتے ہیں

ہم بھی منیر اب دُنیا داری کر کے وقت گزاریں گے 
ہوتے ہوتے جینے کے بھی لاکھ بہانے آ جاتے ہیں

منیر نیازی​
ﻣﯿﮟ ﺁﮌﮮ ﺗﺮﭼﮭﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﻮﭼﻮ
ﮐﮧ ﺑﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﺘﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﮐﻮﺋﯽ ﺷﻨﺎﺳﺎ ﻏﺰﻝ ﺗﺮﺍﺷﻮﮞ
ﮐﮧ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺍﻧﺘﺴﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﮔﻨﻮﺍ ﺩﻭﮞ ﺍﮎ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ
ﮐﮧ ﺍﮎ ﭘﻞ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﻣﺮﯼ ﻃﺒﻌﯿﺖ ﭘﮧ ﻣﻨﺤﺼﺮ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﻧﺼﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﭘﺮ ﮨﮯ
ﻋﺬﺍﺏ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﺛﻮﺍﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ
ﻃﻮﯾﻞ ﺗﺮ ﮨﮯ ﺳﻔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ"؟"
ﻣﯿﮟ ﺟﯽ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ"؟"
ﻣﮕﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺗﻮ ﮐﺐ ﺳﮯ
ﻣﺮﮮ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﮔﻨﻮﺍ ﭼﮑﮯ ﮨﻮ
ﺟﻼ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺣﺮﻭﻑ ﺍﭘﻨﮯ
ﻣﺮﯼ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺑﺠﮭﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﻮ
ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺕ ﺍﻭﮌﮬﻮﮞ ﮐﮧ ﺻﺒﺢ ﭘﮩﻨﻮﮞ
ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺳﻤﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﻮ
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﻼ ﭼﮑﮯ ﮨﻮ
ﺑﮭﻼ ﭼﮑﮯ ﮨﻮ
ﺗﻮ ﺍﺏ ﻣﺮﮮ ﺩﻝ ﭘﮧ ﺟﺒﺮ ﮐﯿﺴﺎ؟
ﯾﮧ ﺩﻝ ﺗﻮ ﺣﺪ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ
ﮔﺰﺭ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ؟
ﺧﺰﺍﮞ ﮐﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﭨﮭﮩﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ
ﭨﮭﮩﺮ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ؟؟
ﻣﮕﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺧﺰﺍﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﻟﮑﮭﻮﮞ

(محسن نقوی )
میں داسی ڈھولن یار کی 
میری پوری ہوئی مراد
اک آ کے یار کی قید میں 
ہوا تن، من، دھن آزاد
مری لوں لوں کوکے ہجرمیں 
کرے دم دم دل فریاد
کوئی درد مصله ڈال کے 
میری مسجد کرے آباد

( فرحت عباس شاہ )

Thursday, 22 January 2015

درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں

چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں مرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں

اُس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں

راستہ روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے
کوئی پوچھے تو کہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں

نرم آواز بھلی باتیں مہذب لہجے
پہلی بارش میں ہی یہ رنگ اُتر جاتے ہیں

جاوید اختر
(ایک آسیبی رات)

کافی دیر گزرنے پر بھی جب وہ گھر نہیں آئی
اور باہر کے آسمان پر کالا بادل کڑکا
تو میرا دل ایک نرالے اندیشے سے دھڑکا
لالٹین کو ہاتھ میں لے کر جب میں باہر نکلا
دروازے کے پاس ہی اک آسیب نے مجھ کو توکا
آندھی اور طوفان نے آگے بڑھ کے رستہ روکا
تیز ہوا نے رو کے کہا “تم کہاں چلے ہو بھائی؟
یہ تو ایسی رات ہے جس میں زہر کی موج چھپی ہے
جی کو ڈرانے والی آوازوں کی فوج چھپی ہے”
میں نے پاگل پن کی دھُن میں مُڑ کر بھی نہیں دیکھا
دل نے تو دیکھے ہیں ایسے لاکھوں کٹھن زمانے
وہ کیسے ان بھوتوں کی باتوں کو سچّا مانے
جونہی اچانک میری نظر کے سامنے بجلی لہرائی
میں نے جیسے خواب میں دیکھا اک خونیں نظّارہ
جس نے میرے دل میں گہرے درد کا بھالا مارا
خون میں لت پت پڑی ہوئی تھی اک ننگی مہ پارہ

پھر گھائل چیخوں نے مل کر دہشت سی پھیلائی
رات کے عفریتوں کا لشکر مجھے ڈرانے آیا
دیکھ نہ سکنے والی شکلوں نے جی کو دہلایا
ہیبت ناک چڑیلوں نے ہنس ہنس کر تیر چلاۓ
سائیں سائیں کرتی ہوا نے خوف کے محل بناۓ
سارے تن کا زور لگا کر میں نے اسے بلایا
“لیلیٰ !لیلیٰ! کہاں ہو تم؟ اب جلدی گھر آ جاؤ”
“لیلیٰ !لیلیٰ! کہاں ہو تم؟”
“لیلیٰ !لیلیٰ! کہاں ہو تم؟”
عفریتوں نے مری صدا کو اسی طرح دہرایا

(منیر نیازی)
یک لخت وچھوڑا اوکھا ہے 

چَن میری مَن، کج قسطاں کر
جاگتی آنکھ کا خواب"

ایک رستہ، جسے کلیوں نے سرِ دشت پرویا ھو، ھماری خاطر
ھم کہیں دُور سے آتے ھوں، کِسی خواب میں گم
ھاتھ میں ھاتھ لئے
سطحِ آئینہ پر چلتی ھُوئی خوُشبو کی طرح
سُبک انداز ھوا کی صورت
وادیء گل کی طرف بہتے ھوئے جاتے ھوں
مگر اے جانِ جہاں، اِس کے لیے
ھمیں گردابِ زمانہ سے نکل آنے کی فرصت بھی تو ھو!
وقت کے دشتِ بلا خیز میں کلیوں کو چٹکنے کی اجازت بھی تو ھو

ایوب خاور
شرافتوں کی یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں
کسی کا کچھ نہ بگاڑو تو کون ڈرتا ہے

Dair tak bethy huey

ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺎﺭﺵ ﺩﯾﮑﮭﯽ

ﻭﮦ ﺩﮐﮭﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﮯ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﻟﭩﮑﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ
ﺑﻮﻧﺪﯾﮟ
ﺟﻮ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺍِﮎ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍِﮎ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﭨﭙﮏ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻓﮑﺮ ﮐﮧ ﺑﺠﻠﯽ ﮐﺎ ﮐﺮﻧﭧ
ﭼﮭﻮ ﮔﯿﺎ ﻧﻨﮕﯽ ﮐﺴﯽ ﺗﺎﺭ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺁﮒ ﮐﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﮨﻮ
ﮔﺎ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﯽ ﮐﺌﯽ ﮐﺸﺘﯿﺎﮞ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﺍُﺗﺎﺭﯾﮟ
ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﮯ ﺑﮩﺎﺩﯾﮟ ﮐﮧ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻓﮑﺮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺳﯿﻼﺏ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ
ﮐﻮﺩ ﮐﮯ ﺍُﺗﺮﮮ ﮔﺎ ﮐﮩﺴﺎﺭ ﺳﮯ ﺟﺐ
ﺗﻮﮌ ﮐﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﯾﮧ ﮐﭽﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ
ﺍﻭﮎ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺑﺮﺳﺎﺕ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ
ﺍَﺩﮪ ﺑﮭﺮﯼ ﺟﮭﯿﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺮﺳﺎﺗﯽ ﺭﮨﯽ
ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺗﮭﯽ، ﮐﻤﺴﻦ ﺗﮭﯽ، ﻭﮦ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﮩﺖ ﺗﮭﯽ
ﺁﺑﺸﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺗﺮﻧﻢ ﭘﮧ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﻧﺠﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ
ﺗﺠﺮﺑﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﻟﺌﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﺎ ﮨﻮﺍ، ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ، ﺑﮩﺘﺎ ﮔﯿﺎ

گلزار

Me Khayal hoon kisi aur ka

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

سرِ آئینہ مرا عکس ہے پس ِ آئینہ کوئی اور ہے

میں کسی کے دست ِ طلب میں ہوں تو کسی کے حرف ِ دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے

عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے، مجھے جانتا کوئی اور ہے

تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی، مجھے دوستوں کا پتہ نہ تھا
تری داستاں کوئی اور تھی، مرا واقعہ کوئی اور ہے

وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا، پہ مری سزا کوئی اور ہے

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا، نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

مری روشنی ترے خدّ و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تُو قریب آ تجھے دیکھ لوں تُو وہی ہے یا کوئی اور ہے

جو مری ریاضتِ نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے


سلیم کوثر

Zameen hai aur asmaan hai aur me hoon

زمیں ہے آسماں ہے اور میں ہوں
مسلسل امتحاں ہیں اور میں ہوں

مسلسل دستکیں ہیں اور تو ہے
درِ آیئندگاں ہے اور میں ہوں

نہ جانے کون تھک جائے گا پہلے
مری عمرِ رواں ہے اور میں ہوں

سلیم اک چھاوں جو زیرِ زمیں ہے
وہ میرا سائباں ہے اور میں ہوں

سلیم کوثر

Sab Muhobat ka aik pehar hai

یہ جو پلکوں پہ رم جھم ستاروں کا میلہ سا ہے 
یہ جو تیرے بنا کوئی اتنا اکیلا سا ہے ۔۔۔ 
زندگی تیری یادوں سے مہکا ہوا شہر ہے 
سب محبت کا اک پہر ہے
زندگی دھوپ چھاؤں کا اک کھیل ہے، بھیڑ چھٹتی نہیں
اور اسی کھیل میں دن گزرتا نہیں، رات کٹتی نہیں
تم نہیں جانتے خواہشوں کی مسافت سمٹتی نہیں
پیار کرتے ہوئے آدمی کی کبھی عمر گھٹتی نہیں 
دل کی دہلیز پر عکس روشن ترے نام سے 
رت جگے آئینوں میں کِھلے ہیں کہیں شام سے 
ایک دریا ہے چاروں طرف درمیاں بحر ہے 
سب محبت کا اک پہر ہے

سلیم کوثر
بارشوں کے موسم میں 
رات کی ہتھیلی پر
ایک ریشمی لمحہ 
چاند بن کے اُترا ہے

نوشی گیلانی

Hum dil me teri chah

ہم دل میں تیری چاہ زیادہ نہیں رکھتے

لیکن تجھے کھونے کا ارادہ نہیں رکھتے

کچھ ایسے سبک سر ہوئے ہم اہل مسافت
منزل کے لیے خواہشِ جادہ نہیں رکھتے

وہ تنگئی خلوت ہوئی اب تیرے لیے بھی
دل رکھتے ہوئے سینہ کشادہ نہیں رکھتے

کس قافلہ ء چشم سے بچھڑے ہیں کہ اب تک
جُز در بدری کوئی لبادہ نہیں رکھتے

کچھ لغزشیں قدموں سے نکلتی نہیں ورنہ
بے وجہ طرف داری ء بادہ نہیں رکھتے

ہم لوگ سلیم اتنے خسارے میں رہے ہیں
اب پیشِ نظر کوئی افادہ نہیں رکھتے

سلیم کوثر

Wussat hai wohi

وسعت ہے وہی، تنگئ افلاک وہی ہے

جو خاک پہ ظاہر ہے، پسِ خاک وہی ہے
-
اک عمر ہوئی موسمِ زنداں نہیں بدلا
روزن ہے وہی، مطلعء نم ناک وہی ہے
-
کیا چشمِ رفوگر سے شکایت ہو کہ اب تک
وحشت ہے وہی، سینہء صد چاک وہی ہے
-
ہر چند کہ حالات موافق نہیں پھر بھی
دل تیری طرف داری میں سفاک وہی ہے
-
اک ہاتھ کی جنبش میں درد بہت ہے، ورنہ
گردش وہی، کوزہ ہے وہی، چاک وہی ہے
-
جو کچھ ہے مرے پاس، وہ میرا نہیں شاید
جو میں نے گنوا دی مری املاک وہی ہے
-
زوروں پہ سلیم اب کے ہے نفرت کا بہاؤ
جو بچ کے نکل آئے گا، تیراک وہی ہے

سلیم کوثر

Monday, 19 January 2015

چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابجولاں چلو
دست اَفشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک برسر چلو، خوں بداماں چلو
راہ تَکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو

حاکمِ شہر بھی، مجمعِ عام بھی
تیرِ الزام بھی، سنگِ دشنام بھی
صبحِ ناشاد بھی، روزِ ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے؟
شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے؟
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے؟

رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

(فیض)​

Dil K Dariya Ko Kisi Roz


دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے

اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے

اُس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہے

بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے

کون اُبھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشتِ سحر جانا ہے

میں کِھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے، اسے اگلے نگر جانا ہے

وہ ترے حُسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے

(امجد اسلام امجد)​

Tum Ne sach bolny ki

تم نے سچ بولنے کی جرات کی

یہ بھی توہین ہے عدالت کی

منزلیں راستوں کی دھول ہُوئیں
پوچھتے کیا ہو تم مسافت کی

اپنا زادِ سفر بھی چھوڑ گئے
جانے والوں نے کتنی عجلت کی

میں‌ جہاں قتل ہو رہا ہوں وہاں
میری اجداد نے حکومت کی

پہلے مجھ سے جُدا ہُوا اور پھر
عکس نے آئینے سے ہجرت کی

اتنا مشکل نہیں تُجھے پانا
اِک گھڑی چاہیئے ہے فرصت کی

ہم نے تو خُود سے انتقام لِیا
تُو نے کیا سوچ کر محبت کی؟

کون کس کے لئے تباہ ہُوا
کیا ضرورت ہے اَس وضاحت کی

عشق جس سے نہ ہو سکا اُس نے
شاعری میں عجب سیاست کی

یاد آئی تو ہے شناخت مگر
انتہا ہو گئی ہے غفلت کی

ہم وہاں پہلے رہ چکے ہیں سلیم
تم نے جس دل میں اب سکونت کی

(سلیم کوثر)​

Mery Dil Ki hai yehi aarzu


میرے دل کی ہے یہی آرزو مجھے تو ہی بس ملا کرے

یونہی چاہے مجھ کو تمام عمر نہ شکائیتں نہ گلہ کرے

میری چاہتیں میری خواہشیں، میری زندگی ہے ترےلیے
میری رب سے یہی دعا ہے بس تجھے کوئی نہ مجھ سے جداکرے

میرے خواب میرے یہ رت جگے میری نیند بھی ہے تیرے لیے
میری زندگی جو بچی ہے اب تیرے نام اس کو خدا کرے

مجھے زندگی سے گلہ نہیں مجھے تجھ سے بس یہی آس ہے
میں بھی چاہوں تجھ کو سدا یونہی تو وفا کرے یا جفا کرے

یہ وہ فاصلے ہیں میرے صنم جنہیں کوئی بھی نہ مٹا سکا
یہ توفیصلے ہیں نصیب کے انہیں کیسے کوئی مٹا کرے

میری زندگی میں خزاں ہے بس نہ بہار ہی کبھی آ سکی
یہی اشک میرا نصیب ہیں کوئی گُل خوشی کا کھِلا کرے

(انجم)​

Saans Lena Keisi adat hai


سانس لینا بھی کیسی عادت ہے
جئیے جانا بھی کیا روایت ہے
کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں
کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں
پاؤں بےحِس ہیں، چلتے جاتے ہیں
اِک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے
کتنے برسوں سے، کتنی صدیوں سے
جیے جاتے ہیں، جیے جاتے ہیں
عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں

گُلزار​

Hum sy milay to Log bhi funkaar hogey

احساسِ برتری میں گرفتار ہو گئے

ہم سے مِلے تو لوگ بھی فنکار ہو گئے


کچھ اَن کہی میں بات محبت کی ہو گئی
کچھ سَر کٹے بھی صاحبِ دستار ہو گئے



پاسِ وفا کا خوف دلوں سے اُتر گیا
لگتا ہے شہر مِصر کے بازار ہو گئے



اس نے جو عشق لازم و ملزوم کر دیا
لمحاتِ وصل اور بھی دُشوار ہو گئے



کل بزمِ بے خیال میں آیا تِرا خیال
اِک شعر کہنا چاہا تو دو چار ہو گئے



حیران کُن ہیں عامی محبت کے حادثے
گونگوں کی بھی زبان سے اقرار ہو گئے



(عمران عامی)​

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...