Saturday, 28 November 2015

JO aa sako to saath do

بڑا کھٹن ہے راستا، جو آسکو تو ساتھ دو
یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو
-
بڑے فریب کھاؤگے، بڑے ستم اُٹھاؤگے
یہ عمر بھر کا ساتھ ہے، نبھا سکو تو ساتھ دو
-
جو تم کہوں یہ دل تو کیا میں جان بھی فداکروں
جو میں کہوں بس اِک نظر لٹا سکو تو ساتھ دو
-
میں اِک غریبِ بے نوا، میں اِک فقیر بے صدا
مری نظر کی التجا جو پا سکو تو ساتھ دو.
-
ہزار امتحان یہاں، ہزار آزمائشیں
ہزار دکھ، ہزار غم اُٹھاسکو تو ساتھ دو
-
یہ زندگی یہاں خوشی غموں کاساتھ ساتھ ہے
رُلا سکو تو ساتھ دو، ہنسا سکو تو ساتھ دو
-
عطا شاد

Waqt Ne aisay ghumaye

شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اُسی خاک سے خوف آتا ہے
-
شکل بننے نہیں پا تی کہ بگڑ جا تی ہے
نئی مٹی کو ابھی چاک سے خوف آتا ہے
-
وقت نے ایسے گھمائے افق آفاق کہ بس
محورِ گردشِ سفّا ک سے خوف آتا ہے
-
یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا
اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے
-
آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لو دیتی ہے
خاک کو خاک کی پوشاک سے خوف آتا ہے
-
قامتِ جاں کو خوش آیا تھا کبھی خلعتِ عشق
اب اسی جامۂ صد چاک سے خوف آتا ہے
-
کبھی افلاک سے نالوں کے جواب آتے تھے
ان دنوں عالمِ افلاک سے خوف آتا ہے
-
رحمتِ سیدِؐ لولاک پہ کامل ایمان
امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے
-
(افتخار عارف)

ik saza aur aseeron Ko suna di jaye

ﺍِﮎ ﺳﺰﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺳِﯿﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺳُﻨﺎ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ

ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺏ ﺟﺮﻡِ ﺍﺳِﯿﺮﯼ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ
-
ﺩﺳﺖِ ﻧﺎﺩﯾﺪﮦ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ، ﻣﮕﺮ
ﭘﮩﻠﮯ ﺟﻮ ﺁﮒ ﻟﮕﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺑُﺠﮭﺎ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ
-
ﺍُﺳﮑﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻟﻮﮒ ﻧﮧ ﺭﻭﺋﯿﮟ ﻧﮧ ﮨﻨﺴﯿﮟ
ﺑﮯ ﺣﺴﯽ، ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﻨﺎ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ
-
ﺻﺮﻑ ﺳُﻮﺭﺝ ﮐﺎ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺻُﺒﺢ، ﺗﻮ ﭘﮭﺮ
ﺍﯾﮏ ﺷﺐ ﺍﻭﺭ، ﻣﺮﯼ ﺷﺐ ﺳﮯ ﻣِﻼ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ
-
ﺷﺮﻁ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﻝ ﻣِﻠﺘﮯ ﮨﻮﮞ
ﺻﺮﻑ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ، ﺁﻭﺍﺯ ﻣِﻼ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ
-
ﺑﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮ ﻣﻼﻗﺎﺕ، ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ
ﺑﺰﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺭَﺳﻢ ﺍُﭨﮭﺎ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ
-
ﺻﺮﻑ ﺟﻠﻨﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﮨﻢ ﮐﻮ ﺑﮭﮍﮐﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ
ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺁﮒ ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ، ﮨَﻮﺍ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ
-
ﺍﻭﺭ ﺍِﮎ ﺗﺎﺯﮦ ﺳﺘﻢ، ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﺠﺎﺩ
ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺍِﺱ ﺑﺎﺭ ﺫﺭﺍ ﮐُﮭﻞ ﮐﮯ ﺩُﻋﺎ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ
-
ﭘﯿﺮﺯﺍﺩﮦ ﻗﺎﺳﻢؔ ﺻﺪﯾﻘﯽ

Achi Larki Zid nahi kartay

من جس کا مولا ہوتا ہے

وہ بلکل مجھ سا ہوتا ہے
-
آنکھیں ہنس کر پوچھ رہی ہیں
نیند آنے سے کیا ہوتا ہے
-
مٹی کی عزت ہوتی ہے
پانی کاچرچا ہوتا ہے
-
مرنے میں کوئی بحث نہ کرنا
مر جانا اچھا ھوتا ھے
-
اچھی لڑکی ضد نہیں کرتے
دیکھو عشق برا ہوتا ہے
-
آدم ہے اور تنہائی ہے
دیکھو اب کیا کیا ہوتا ہے
-
وقت کے زخم کا پوچھ رہے ہو؟؟
تھوڑا سا گہرا ہوتا ہے
-
بن بتلائے مت آیا کر
آنکھوں کو دھوکا ہوتا ہے
-
وحشت کا ایک گر ہے جس میں
قیس اپنا بچا ہوتا ہے
-
جانتا ہوں منصور کو بھی میں
میرے ہی گھر کا ہوتا ہے
-
بس کر بھئی سادھو بس کر
ہوتا ہے ایسا ہوتا ہے
-
علی زریون

Mazrat

" معذرت"

-
پیارے قاری
تم کیا پڑھںا چاھتے ھو ؟
نیند بھری کچھ نظمیں ؟؟
لوری دیتی غزلیں ؟؟
جن کو پڑھ کر سرخ، سفید اور نیلا،سبز نظر آتا ھَے ؟؟
یا پھر وہ ٹھرکی اشعار جو ایس ایم ایس ھو سکتے ھوں ؟؟
یہ سودا تو اپنے پاس نہیں ھے پیارے
اپنے پاس تو شبدوں کے کچھ آیئنے ھیں
آئینوں میں حال چھپا ھے
" حال" بڑا چبھنے والا ھے
سچا جو ھَے
دیکھنے اور سہنے کی ھمّت ھے تو آو
ورنہ
جن نظموں غزلوں کے تم شیدا ھو
ان نظموں غزلوں کے شاعر اگلے چوک پہ مل جائیں گے
کاروباری اور سیاست کے انداز سکھانے والے
جن کو " آہ" سے بڑھ کر " واہ" طلب ھوتی ھے
یہ دھندہ تو وہ کرتے ھیں
یہ دیوانوں کی بیٹھک ھے
پیارے قاری
اگلے چوک کی جانب بھاگو
جو " نشّہ" تم کو درکار ھے
وہ تو اپنے پاس نہیں ھے
اُن سے جا کر نیند بھری کچھ غزلیں سن لو
اور سو جاو ۔۔ !!
-
علی زریون

Sonaan

آدھی رات اک فون بجا تھا
دور کسی موہوم سرے سے
اک انجان آواز نے چھُو کر پوچھا تھ
آپ ہی وہ شاعر ہیں جس نے”
اپنی کچھ نظمیں ”سوناں“ کے نام لکھی ہیں؟
-
“میرا نام بھی ”سوناں“ ہو تو؟
-
ایک پتلی سی جھِلّی جیسی خاموشی کا وقف
میرے نام ایک نظم لکھو ناں“
مجھے بھی اپنے اک چھوٹے سے شعر میں سی دو
شاید میری زندگی کی آخری شب ہے
”سوچا، آخری خواہش آپ کو سونپ کر جاؤں
بہت دنوں بعد مجھے معلوم ہوا
درد سے درد بجھانے کی اک کوشش میں تم
کینسر کی اس آگ پہ 
میری نظمیں چھڑکا کرتی تھی
-
"گلزار"

Wednesday, 18 November 2015

Khalwat

(خلوت)
مجھے تم اپنی بانہوں میں جکڑ لو اور میں تم کو
کسی بھی دل کشا جذبے سے یکسر ناشناسانہ
نشاطِ رنگ کی سرشاریء حالت سے بیگانہ
مجھے تم اپنی بانہوں میں جکڑ لو اور میں تم کو
فسوں کارہ! نگارا! نو بہارا! آرزو آرا!
بھلا لمحوں کا میری اور تمہاری خواب پرور
آرزو مندی کی سرشاری سے کیا رشتہ؟
ہماری باہمی یادوں کی دلداری سے کیا رشتہ؟
مجھے تم اپنی بانہوں میں جکڑ لو اور میں تم کو
یہاں اب تیسرا کوئی نہیں یعنی محبت بھی-----
(ایلیا جونؔ)

Is waqt to youn lagta hai



اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب، نہ سورج، نہ اندھیرا، نہ سویرا

آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حُسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا


ممکن ہے کوئی وہم ہو، ممکن ہے سُنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا

شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا

اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیـرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میـرا

مانا کہ یہ سُنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے

ہمت کرو جینے کو تو اک عُمر پڑی ہے

Hum kabhi keh na saky is k sitam achay hain



ہم کبھی کہہ نہ سکے اس کے ستم اچھے ہیں
پھر بھلا کون یہ مانے گا کہ ہم اچھے ہیں
-
ہم نے اب تک کسی شمشیر کو بوسہ نہ دیا
ہم تو قاتل کی توقع سے بھی کم اچھے ہیں
-
مان کر بھی جنھیں ایمان کی دولت نہ ملے
اُن خداؤں سے تو پتھر کے صنم اچھے ہیں
-
ہم سے ملتے تھے وہاں شیخ و برہمن دونو
بزمِ ساقی سے کہاں دیر و حرم اچھے ہیں
-
جو مسافر کو دکھاتے نہیں سیدھا رستہ
اُس ستاروں سے ترے نقشِ قدم اچھے ہیں
-
کیا کریں ایسی خوشی کو جو بھکاری کر دے
ہم کو جاناں ترے بخشے ہوئے غم اچھے ہیں
-
اں کو بخششیں ملی اور ہمیں رزقِ حلال
کوئی بتلائے وہ اچھے ہیں کہ ہم اچھے ہیں
-
بھوک سہہ کر بھی جو لکھتے رہے سچ بات قتیل
ساری بستی میں وہی اہلِ قلم اچھے ہیں


Ham Bhi Keh Nah Sakay Us Kay Sitam Achay Hain
Phir Bhala Koun Yeh Manay Ga Kah Ham Achay Hain
-
Ham Nay Ab Tak Kisi Shamsheer Ko Bosa Nah Dia
Ham Tou Qaatil Ki Tawwaqa Say Bhi Kam Achay Hain
-
Maan Kar Bhi Jinhain Emaan Ki Dolat Nah Milay
Un Khudaoun Say Tou Pathar K Sanam Achay Hain
-
Ham Say Miltay Thay Wahan Shaikh-o-Barhaman Dono
Bazm-e-Saaqi Say Kahan Dair-o-Haram Achay Hain
-
Jo Musaafir Ko Dikhatay Nahein Seedha Rasta
Un Sitaroun Say Tere Naqsh-e-Qadam Achay Hain
-
Kaya Karain Aisi Khushi Ko Jo Bikhari Kar Day
Ham Ko Janaan Tere Bakhshay Huay Gham Achay Hain
-
Unko Bakhshi’shain Mili Aur Hamain Rizq-e-Halaal
Koi Batlae Woh Achay Hain Kah Ham Achay Hain
-
Bhook She Kar Bhi Jo Likhtay Rahay Sach Baat Qateel
Sari Basti Main Wohi Ahl-e-Qalam Achay Hain

Qateel Shifaii

Raat baqi rahay

ان کی سازش تو ہے ــ رات باقی رہے
عمر بھر ــ ظلم کی بات باقی رہے
`-
شہر جلتا رہے ـ ـ شہر کی فکر کیا؟
قاتل شہر کی ــ ذات باقی رہے
-
یہ جو ظاہر ہیں بازو ـ ـ یہ کٹتے رہیں
وہ جو خفیہ ہے ــ وہ ہاتھ باقی رہے
-
زخم دل کی ـ ـ نمائش ضروری نہیں
لب پہ ــ حرف مناجات باقی رہے
-
کوئے دلدار میں ـ ـ بکنے والے بہت
سیم و زر کی ــ یہ برسات باقی رہے
-
شوق سے توڑ دیجے تعلق ـ ـ مـــگر
راستے کی ملاقات باقی رہے
-
اک ستمــــگر کی ضد ہے ـ ـ کہ "محسن" یہاں
امن بھی ــ ظلم کے ساتھ باقی رہے
-
محسن نقوی

Koi KHamosh Zakhm lagti hai



کوئی خاموش زخم لگتی ہے
زندگی ایک نظم لگتی ہے
-
بزم _یاراں میں رہتا ہوں تنہا
اور تنہائی بزم لگتی ہے
-
ہم سے چاہے کہیں کی بات کرو
ہوتی تم پر ہی ختم لگتی ہے
-
اپنے سائے پہ پاؤں رکھتا ہوں
چھاؤں چھالوں کو نرم لگتی ہے
-
گلزار


Koi Khamosh Zakhm Lagti hai
Zindagi aik Nazm Lagti hai
-
Bazm-eYaraan me rehta hoon Tanha
Aur Tanhai Bazm Lagti hai

-
Hum sy chahy kahein ki baat karo
Hoti Tum par hi khatm lagti hai
-
Apny saaey py paaaon rakhta hoon
chaaon Chaalon Ko narm lagti hai

Us Ki baatein, Us Ka Lehja aur me hoon

اس کی باتیں، اس کا لہجہ اور میں ہوں
نظم پڑی ہے مصرعہ مصرعہ، اور میں ہوں
-
ایک دیا رکھا ہے ہوا کے کاندھے پر
جس کا لرزتا، جلتا سایا اور میں ہوں
-
اس گاؤں کی آبادی بس اتنی ہے
شہر سے بھاگ کے آنے والا اور میں ہوں
-
چاروں جانب تنہائی کے لشکر ہیں
بے ترتیب سا ایک ہے کمرہ اور میں ہوں
-
ویسے تو سب لوگ یہاں پر مردہ ہیں
اس نے مجھ کو زندہ سمجھا، اور میں ہوں

Ajal sy Khauf zada zeest sy darey huey log

اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ
سو جی رہے ہیں مرے شہر میں مرے ہوئے لوگ
-
یہ بے دلی کسی آفت کا پیش خیمہ نہ ہو
کہ چشم بستہ ہیں زانو پہ سر دھرے ہوئے لوگ
-
نہ کوئی یاد نہ آنسو نہ پھول ہیں نہ چراغ
تو کیا دیارِ خموشاں سے بھی پرے ہوئے لوگ
-
ہوائے حرص سبھی کو اُڑائے پھرتی ہے
یہ گرد بادِ زمانہ یہ بھُس بھرے ہوئے لوگ
-
یہ دل سنبھلتا نہیں ہے وداعِ یار کے بعد
کہ جیسے سو نہ سکیں خواب میں ڈرے ہوئے لوگ
-
کچھ ایسا ظلم کا موسم ٹھہر گیا ہے فرازؔ
کسی کی آب و ہوا میں نہ پھر ہرے ہوئے لوگ

Nahi K sirf shuaein Banana janta hai

نہیں کہ صرف شعاعیں بنا نا جانتا ہے
وہ سائبانِ کرم بھی سروں پہ تانتا ہے
-
کوئی بشر تو نہیں وہ کہ ضد پہ اڑ جائے
کرو جو پیش تو عذرِ خطا بھی مانتا ہے
-
زمیں پہ جس نے سجایا ہے بارشوں کا جمال
سمندروں کو وہی بدلیوں سے چھانتا ہے
-
کسی اداس شجر کی سنی گئی ہے دُعا
ہر ایک برگ خزاں پر بڑی سہانتا ہے
-
ہر ایک شکل میں جلوہ دکھائے وہ اپنا
یہاں ہے جو بھی حسینہ وہ چندر کانتا ہے
-
میں چند لوگوں کے چہرے ہی پڑھ سکا ہوں قتیل
دلوں کے بھید تو میرا خدا ہی جانتا ہے
-
Nahein Kah Sirf Shuaen Banana Janta Hay
Woh Saibaan-e-Karam Bhi Saroun Pah Taanta Hay
-
Koi Bashar Tou Nahien Woh Kah Zidd Pah Ar Jaye
Karo Jo Paish Tou Uzr-e-Khata Bhi Manta Hay
-
Zameen pah Jis Nay Sajaya Hay Baarishoun Ka Jamal
Samundaroun Ko Wohi Badlioun Say Chanta Hay
-
Kisi Udaas Shajar Ki Suni Gayi Hay Dua
Har Aik Barg-e-Khizaan Par Bari Sahanta Hay
-
Har Aik Shakal Main Jalwa Dikhae Woh Apna
Yaha Hay Jo Bhi Haseena Woh Chandar Kanta Hay
-
Main Chand Logoun K Chehray Hi Parh Saka Houn Qateel
Diloun K Bhaid Tou Mera Khuda Hi Janta Hay

Khauf Hi aisay Humary Dil py taari hogey

خوف ہی ایسے ہمارے دل پہ طاری ہو گئے
جو ضروری لوگ تھے وہ اختیاری ہو گئے
-
چل رھے ھیں شمع لے کر ہاتھ میں سورج کےساتھ
روشنی کے لوگ کچھ اتنے بھکاری ہو گئے
-
مل گیا آخر مجھے اپنی وفاؤں کا صلہ
اس کی آنکھوں سے بھی آخر اشک جاری ہو گئے
-
یہ ہوا پھولوں سے خوشبو اڑ گئی رنگوں کے ساتھ
یہ ہوا چہرے سبھی رنگوں سے خالی ہو گئے
-
ڈھونڈتا ھے کس لئے لوگوں میں رسمِ دوستی
جو ترے احباب تھے وہ کاروباری ہو گئے

Muhobat Me aziyat Shanas kitni Thi

محبتوں میں اذّیت شناس کتنی تھیں!
بچھڑتے وقت وہ آنکھیں اُداس کتنی تھیں!
-
فلک سے جن میں اُترتے ہیں قافلے غم کے
مری طرح وہ شبیں اُس کو راس کتنی تھیں
-
غلاف جن کی لحد پر چڑھائے جاتے ہیں
وہ ہستیاں بھی کبھی بے لباس کتنی تھیں؟
-
بچھڑ کے تجھ سے کسی طور دِل بہل نہ سکا
نِشانیاں بھی تری میرے پاس کتنی تھیں!
-
اُتر کے دل میں بھی آنکھیں اُداس لوگوں کی
اسیرِ وہم و رہینِ ہراس کتنی تھیں!
-
وہ صورتیں جو نکھرتی تھیں میرے اشکوں سے
بچھڑ کے پھر نہ ملیں ناسپاس کتنی تھیں
-
جو اُس کو دیکھتے رہنے میں کٹ گئیں محسن
وہ ساعتیں بھی محیطِ حواس کتنی تھیں

Woh Khat K purzy Ura raha tha

وہ خط کے پرزے اُڑا رہا تھا
ہواؤں کا رُخ دِکھا رہا تھا
-
بتاؤں کیسے وہ بہتا دریا
جب آ رہا تھا تو جا رہا تھا
-
کہیں مرا ہی خیال ہو گا
جو آنکھ سے گرتا جا رہا تھا
-
کچھ اور بھی ہو گیا نمایاں
مَیں اپنا لکھا مٹا رہا تھا
-
وہ جسم جیسے چراغ کی لَو
مگر دھُواں دِل پہ چھا رہا تھا
-
منڈیر سے جھک کے چاند کل بھی
پڑوسیوں کو جگا رہا تھا
-
اسی کا ایماں بدل گیا ہے
کبھی جو میرا خُدا رہا تھا
-
وہ ایک دن ایک اجنبی کو
مری کہانی سنا رہا تھا
-
وہ عمر کم کر رہا تھا میری
مَیں سال اپنا بڑھا رہا تھا
-
خدا کی شاید رضا ہو اس میں
تمہارا جو فیصلہ رہا تھا

Jee Deikha hai Mar Dekha hai

جی دیکھا ہے مر دیکھا ہے
ہم نے سب کچھ کر دیکھا ہے
-
برگِ آوارہ کی صورت
رنگِ خشک و تر دیکھا ہے
-
ٹھنڈی آہیں بھرنے والو
ٹھنڈی آہیں بھر دیکھا ہے
-
تیری زلفوں کا افسانہ
رات کے ہونٹوں پر دیکھا ہے
-
اپنے دیوانوں کا عالم
تم نے کب آ کر دیکھا ہے
-
انجُم کی خاموش فضاء میں
میں نے تمہیں اکثر دیکھا ہے
-
ہم نے اس بستی میں جالب
جھوٹ کا اونچا سر دیکھا ہے
-
حبیب جالب

Koi had nahi hai Kamal ki

کوئی حد نہیں ہے کمال کی
کوئی حد نہیں ہے جمال کی
-
وہی قرب و دور کی منزلیں
وہی شام خواب و خیال کی
-
نہ مجھے ہی اس کا پتہ کوئی
نہ اسے خبر مرے حال کی
-
یہ جواب میری صدا کا ہے
کہ صدا ہے اس کے سوال کی
-
یہ نماز عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
-
وہ قیامتیں جو گزر گئیں
تھی امانتیں کئ سال کی
-
ہے منیر تیری نگاہ میں
کوئی بات گہرے ملال کی

Jahaan Tamseel Tum me ho gaya hoon

جہاں تمثیل تم میں ہو گیا ہے
یہ کیا ترسیل تم میں ہو گیا ہے
-
کھلا جو خواب میں کل شب گلستاں
وہی تبدیل تم میں ہو گیا ہے
-
سر آئینہ ہوتا تھا مرا عکس
کہیں تبدیل تم میں ہو گیا ہے
-
تسلسل سے سفر میرے لہو کا
ہزاروں میل تم میں ہو گیا ہے
-
ذرا اپنے بدن کو چھو کے دیکھو
کوئی تحلیل تم میں ہو گیا ہے

Shab K Barq e soz e dil sy zehar aab Tha


شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرہ ابر آب تھا
شعلہ جوالہ ہر اک حلقہ گرداب تھا
-
واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبہ بالش کف سیلاب تھا
-
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا
-
جلوہ گل نے کیا تھا واں چراغاں آبجو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا
-
یاں سرِ پرشور بیخوابی سے تھا دیوار جو
واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا
-
یاں نفس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بیخودی
جلوہ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا
-
فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا
-
ناگہاں اس رنگ سے خوننابہ ٹپکانے لگا
دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا
-
--غالب

Gulaab Ki Kiran py jeisay koii

گلاب کی کرن پہ جیسے کوئی کرن جھلملا رہی ہے
تمہارے یاقوت سے لبوں پر نگاہ کو نیند آ رہی ہے
-
یہ اک تقاضا کہ جیسے تالاب میں کوئی بُلبلہ سا ٹوٹے
یہ التفاتِ جمال تیرا کہ رات باہوں میں آ رہی ہے
-
ترے بدن کی ملاحتوں کے یہ پے بہ پے عطر پاش جلوے
کہ جیسے تانبے کی طشتری سے گلاب کی بو آ رہی ہے
-
تمہاری بانہوں کے لہلاتے فریب میں آگئے مسافر
قدم رکے بھی تو ہم نے جانا کہ ہم کو منزل بلا رہی ہے
-
کبھی کبھی عارضوں کے شعلے نگاہ کو یوں جھلس گئے ہیں
کہ جیسے برفاب کی صراحی شفق سے آنکھیں ملا رہی ہے
-
Gulaab Ki Pankhri Pah Jaisay Koi Kirn Jhilmila Rahi Hay
Tumharay Yaqoot Say Laboun Par Nigah Ko Neend Aa Rahi Hay
-
Yeh Ek Taqaza Kah Jaisay Talaab Main Koi Bulbula Sa Tootay
Yeh Iltifat-e-Jamaal Tera Kah Raat Banhoun Main Aa Rahi Hay
-
Tere Badan Ki Malahtoun K Yeh Pay Bah Pay Itr Paash Jalway
Kah Jaisay Tanbay Ki Tashtari Say Gulaab Ki Bou Aa Rahi Hay
-
Tumhari Banhoun K Lehlahatay Faraib Main Aagaye Musafir
Qadam Rukay Bhi Tou Ham Nay K Jana Kah Ham Ko Manzil Bula Rahi Hay
-
Kabhi Kabhi Aarzoun K Sholay Nigah Ko Youn Jhulas Gaye Hain
Kah Jaisay Barfaab Ki Surahi Shafaq Say Aankhain Mila Rahi Hay

Lahoo Ki moj hoon aur jism K hisaar me hoon

لہو کی موج ہوں اور جسم کے حصار میں ہوں
رواں رہوں بھی تو کیسے کہ برف زار میں ہوں
-
جہان شام الم کے اداس ہم سفرو
مجھے تلاش کرو میں اسی دیار میں ہوں
-
میں پھول بھی ہوں میرے پیرہن میں رنگ بھی ہے
مگر ستم یہ ہوا ہے کہ ریگ زار میں ہوں
-
چراغ راہ سہی خود فریب ہوں اتنا
کہ شب کی آخری ہچکی کے انتظار میں ہوں
-
ہر ایک پل مجھے خوف شکست ہے "محسن"
میں آئینہ ہوں مگر سنگ دست بار میں ہوں
-
محسن نقوی

Phir subha KI hawa me jee ko maalaal aaye

پھر صُبح کی ھوا میں جی کو مَلال آئے
جس سے جدا ھُوئے تھے، اُس کے خیال آئے
-
اچھی مثال بنتی، ظاہر اگر وہ ھوتی
اُن نیکیوں کو تو ھم ، دریا میں ڈال آئے
-
جن کا جواب شاید ، منزل پہ بھی نہیں تھا
رستے میں اپنے دل میں، ایسے بھی سوال آئے
-
کل بھی تھا آج جیسا ، ورنہ منیر ھم بھی
وہ کام آج کرتے، کل پر جو ٹال آئے۔
-
”منیر نیازی“

Phaily gi Behar Taur

پھیلے گی بہر طور شفق نیلی تہوں میں
قطرے کا لہو بھی ہے سمندر کی رگوں میں
-
مقتل کی زمیں صاف تھی آئینہ کی صورت
عکسِ رخِ قاتل تھا ہر اک قطرہءِ خوں میں
-
مت پوچھ مری چشمِ تحیر سے کہ مجھ کو
کیا لوگ نظر آئے ہیں دشمن کی صفوں میں
-
کچھ وہ بھی کم آمیز تھا، تنہا تھا، حسیں تھا
کچھ میں بھی مخل ہو نہ سکا اس کے سکوں میں
-
ہر صبح کا سورج تھا میرے سائے کا دشمن
ہر شب نے چھپایا ہے مجھے اپنے پروں میں
-
اب اہل خرد بھی ہیں لہو سنگِ جنوں سے
کیا رسم چلی شہر کے آشفتہ سروں میں
-
جو سجدہ گہِ ظلمت ِ دوراں رہے محسن
اتری نہ کوئی اندھی کرن ایسے گھروں میں

Woh Tera naam tha

جس کی جھنکار میں دل کا آرام تھا وہ تیرا نام تھا
میرے ہونٹوں پہ رقصاں جو اک نام تھا وہ تیرا نام تھا
-
مجھ سے منسوب تھیں داستانیں کئی ایک سے ایک نئی
خوبصورت مگر جو اک الزام تھا وہ تیرا نام تھا
-
غمِ نے تاریکیوں میں اُچھالا مجھے مار ڈالا مجھے
اک نئی چاندنی کا جو پیغام تھا وہ تیرا نام تھا
-
تیرے ہی دم سے ہے یہ قتیل آج بھی شاعری کاولی
اس کی غزلوں میں کل بھی جو الہام تھا وہ تیرا نام تھا
-
قتیل شفائی

Bara Kathan Hai Rasta, Jo aa sako To saath do

بڑا کھٹن ہے راستا، جو آسکو تو ساتھ دو
یہ زندگی کا فاصلہ مٹا سکو تو ساتھ دو
-
بڑے فریب کھاؤگے، بڑے ستم اُٹھاؤگے
یہ عمر بھر کا ساتھ ہے، نبھا سکو تو ساتھ دو
-
جو تم کہوں یہ دل تو کیا میں جان بھی فداکروں
جو میں کہوں بس اِک نظر لٹا سکو تو ساتھ دو
-
میں اِک غریبِ بے نوا، میں اِک فقیر بے صدا
مری نظر کی التجا جو پا سکو تو ساتھ دو.
-
ہزار امتحان یہاں، ہزار آزمائشیں
ہزار دکھ، ہزار غم اُٹھاسکو تو ساتھ دو
-
یہ زندگی یہاں خوشی غموں کاساتھ ساتھ ہے
رُلا سکو تو ساتھ دو، ہنسا سکو تو ساتھ دو
-
عطا شاد

ik ghareeb basti K

اک غریب بستی کے بے نوا مکینوں کی
مشکلیں گنانے میں
ان کی بدنصیبی پر بات چیت کرنے میں
اشک_غم بہانے میں
مفلسی کے خوابوں کی، سائیگی بتانے یا
کرچیاں دکھانے میں
اور غریب ہونے میں، فرق انتہا کا ہے
بدنصیب لوگوں کی، بے کسی پہ کڑھنے میں
اور ان کے جیسا ہی
بدنصیب ہونے میں، فرق انتہا کا ہے
-
ان غریب لوگوں اور ان کی بدنصیبی پر
بات ہو تو سکتی ہے
ان کے درد قصوں کی سرخیاں جمانے میں
رات ہو تو سکتی ہے
-
عالم_غریبی کا عالمی حوالوں سے
تجزیہ تو ممکن ہے
ان خراب حالوں کا مرثیہ تو ممکن ہے
-
دیکھنا مگر یہ ہے
ان غلیظ گلیوں کے، ٹوٹتے مکانوں میں
پل کے کون دیکھے گا
مستقل اہانت کے تجربے کی بھٹی میں 
جل کے کون دیکھے گا
بےکنار زلت کے، بے چراغ رستوں ہر
چل کے کون دیکھے گا
-
امجد اسلام امجد

Tumhary Liye SUno

تمہارے لیے....!!
سنو..
تمہارے لیے ہی لفظوں کی یہ بزم سجائی ہے
وہ لفظ جو بکهرے ہوئے موتیوں کی طرح تهے
اپنی جگہ مکمل،مگر بے معنی
یہ موتی میرے اردگرد بکهرے ہوئے تهے
میں روز انہیں یونہی روندے ہوئے گزر جاتا
مگر پهر اچانک تم مل گئیں
تمہاری محبت غیر محسوس طریقے سے میری رگوں میں دوڑنے لگی
محبت...
جس کے بارے کہتے ہیں "ذات کی تکمیل ہوتی ہے"
کائنات کا خوبصورت ترین جذبہ
اور تم نے مجهے سر سے پاوں تک محبت کردیا
میں یہ اقرار کرتا ہوں
کہ تم نے،تمہاری محبت نے مجهے ان بکهرے موتیوں کو پرونا سکهایا
میرے جذبے اپاہج تهے
تم نے قلم کے ذریعے انہیں چلنا سکهایا
اور اس کے بعد میں نے تمہارے سنگ گزارا ہر لمحہ تصویر کرلیا
جذبوں کو لفظوں کے قالب میں ڈهال دیا
وہ کبهی نظم کی صورت اور کبهی غزل کا روپ میں ڈهل گئے
تبهی تو تم محسوس کرسکتی ہو
کہ میری شاعری کےپہلو میں تم دل بن کے ڈهڑکتی ہو
تم نے میرے لئے اتنا کیا اور میں تمہارے لئے کچهہ نہ کرسکا
تمہارے ساتهہ چلنے کی خواہش تهی مگر نا چل سکا
میری مجبوریاں میرے پاوں کی بیڑیاں بن گئیں
مگر مجهے اپنا وعدہ یاد ہے
کہ میں لفظوں کے موتیوں سے جتنی بهی مالائیں بناوں گا
سب تمہارے لئے ہوں گی
میں آج اس عہد کی تجدید کرتا ہوں،اس اقرار کے ساتهہ کہ مجهے تم سے محبت ہے
وہ محبت جو ذات کی تکمیل ہوتی ہے....!!

Muhobat K darakhton sy



محبت کے درختوں سے
کوئی پتہ بھی گر جائے
ہوا کو چوٹ لگتی ہے
عجب وحشت کے عالم میں 
ہوا یوں سنسناتی ہے
اسے رستہ نہیں ملتا
کوئی تو دشت ہو ایسا 
جہاں دیوار ہو غم کی
جہاں وہ سر پٹخ ڈالے
مگر بے درد آندھی کو
خبر شاید نہیں کہ جب
محبت کے درختوں سے
کوئی پتہ اگر ٹوٹے 
تو اک اک شاخ کو
اس سے بچھڑ جانے کا کتنا رنج ہوتا ہے
جڑوں کی آخری حد تک
بلا کا درد رہتا ہے
ہوا کو اس سے کیا مطلب
اسے تو ایک ہی پتے کا ماتم کرنا ہوتا ہے
ہوا تو شور کرتی ہے
اور اس کے شور سے 
کتنے ہی پتے پھر اُجڑتے ہیں
اُسے کیسے خبر ہو گی کہ تنہا پیڑ
بے چارہ
سلگتی دھوپ میں
تنہا
تھکا ہارا
کھڑا
نہ بیٹھ سکتا ہے
نہ آنسو پونچھ سکتا ہے
مگر وہ پھر بھی سایہ دار ہے
اپنی جگہ قائم
فقط خاموش اور ساکت
مگراکثر وہ کچھ کچھ بُڑبڑاتا، بولتا ، باتیں بھی کرتا ہے
وہی باتیں کہ جو بے چین سا اک شخص
اس پر لکھ دیا کرتا
کسی بچھڑے ہوئے کے نام کچھ یادیں۔۔
سنو!
تم جب کبھی تنہا کسی بھی پیڑ کے سائے میں بیٹھو
تو کبھی کچھ بھی نہیں لکھنا
نہ میرا نام اپنے ساتھ
نہ اپنا علیحدہ سے
محبت کا شجر سب کچھ سمجھتا ہے
اُسے پڑھنا بھی آتا ہے
تمہیں میں اس لیے محتاط کرتا ہوں
کہ اُس کا بخت اپنا ہے
تم اپنا اور میرا نام اپنے دل میں ہی لکھو
تو بہتر ہے۔
جب اپنے بخت سے تم لڑ نہیں سکتیں
تو پھر کس واسطے پیڑوں کو اپنا دکھ سناتی ہو
انہیں کیو نکر ستاتی ہے
وہ اپنے درد سے عاجز
تمہارا دُکھ کہاں بانٹیں؟
محبت کے درختوں سے
گرے ،بکھرے ہوئے پتے جہاں دیکھو
اُٹھاؤ!
اپنے آنچل میں سمیٹو
اور واپس لوٹ کر آؤ!!
سو ممکن ہے تمہارا درد بَٹ جائے!


شاعر: زین شکیل

Pani, Barf Ka khail muhobat

پانی، برف کا کھیل محبت
جیون کے گزرے لمحوں میں
آگے پیچھے دوڑ بھاگ میں
ایک ہی پل کو
مجھ کو ہاتھ لگا کر تم نے
بے دھیانی میں 'برف' پکارا
اور اس کے بعد
وقت کی رو میں آگے بڑھ کر
پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا
اس لمحے سے آج تلک میں
وہیں پہ 'جم' کے کھڑی ہوئی ہوں...
سوچ رہی ہوں
کب تم واپس پلٹو گے؟؟
مجھ کو چھو کر
'پانی' کہہ کر
پھر سے جیون بخشو گے
اور مجھ کو آزاد کرو گے
یا پھر مجھ کو
جیون بھر اب
'برف' کی مانند ہی رہنا ہے؟؟
بے حس, بے کل, بے دم, بے جاں...!!!

Nahi Milay naa ?/

نہیں ملے ناں!

تمہیں کہا تھا کہ پاس رہنا 
کوئی بھی رت ہو، کوئی بھی موسم
کوئی گھڑی ہو
اگر فلک سے کبھی جو مجھ پر
ان آفتوں کے پہاڑ ٹوٹیں
تو راس رہنا
تمہیں کہا تھا ناں پاس رہنا
یہ کیا کیا ہے؟
کسی کی باتوں میں آ گئے ناں
کسی کی مرضی ہی مان لی ناں
نہیں ملے ناں!
تمہیں کہا تھا جو تم نہ ہو گے
تو رو پڑوں گا
مجھے سمیٹے گا کون آ کر
چنے گا آنکھوں سے کون آنسو
بہت کہا تھا،
بہت ہی زیادہ تمہیں کہا تھا
نہیں سنا ناں!
جو مان توڑا یا آپ ٹوٹا
تمہیں کہا تھا میں رو پڑوں گا
میں رو پڑا ناں۔۔
بہت دنوں سے اداس ہوں میں
نہیں ملے تھے!
اداس کر کے چلے گئے ناں!
نہیں ملے ناں!
-
زین شکیل

November aa gaya Janaan

ﻧﻮﻣﺒﺮ ﺁﮔﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ
ﺍﺩﺍﺳﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺳﮧ ﭘﮩﺮ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ
ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﺟﯿﺴﮯ ﺗﺘﻠﯽ ﮐﮯ ﮐﭽﮯ ﺭﻧﮓ, ﯾﮑﺴﺮ ﺑﮯ
ﺩﮬﯿﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ___ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻡ__ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﻮﮞ ﮨﻢ ﺁﻏﻮﺵ
ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﻭ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺗﻠﮯ ﺍﻭﭘﺮ 
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻨﺴﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺗﻮ, ﻭﮨﯽ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﻮﺭﮮ
ﺑﯿﺲ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺭ 
ﻣﮕﺮ ﺩﻭﺭﺍﻧﯿﮧ ﭘﮩﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ__
ﺳﻮﯾﺮﺍ ﮐﺐ ﮨﻮﺍ ﻣﺪﮬﻢ
ﺍﺟﺎﻻ ﺩﻥ ﮈﮬﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺐ ﮨﻮﺍ ﻣﺪﻏﻢ،
ﮔﻼﺑﯽ ﺷﺎﻡ __ ﮐﺎﻟﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺳﻨﮓ ﮐﺐ
ﮨﻮﺋﯽ ہمدم
ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ
ﺍﺳﯽ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﺯﺭﺩ ﺭﻧﮓ ﻟﮯ ﮐﺮ
ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﮨﮯ.. ﺍﻭﺭ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ،
ﮔﺬﺷﺘﮧ ﺑﺴﺮﯼ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﮯ،
ﺳﻮﮐﮭﮯ ﺯﺭﺩ ﭘﺘﮯ, ﺑﮩﺖ ﺑﮯﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﮨﻮ ﮐﺮ
ﺟﮭﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ, ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ, ﺑﮑﮭﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻮﺍ ﺳﮯ ﺍﮌﺗﮯ ﭘﮭﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ 
ﮔﺬﺭﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺑﮯ ﺭﺣﻢ ﺳﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺗﻠﮯ
ﮐﺮﮐﺮﺍﺗﮯ ﮬﯿﮟ 
ﯾﻮﻧﮩﯽ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﺯﺭﺩ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﮯ
ﭘﺮﮐﯿﻒ ﺳﮯ ﺟﮭﺮﻣﭧ ﺍﻭﺭ 
ﻧﻮﻣﺒﺮ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮨﻢ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺭﺍﺱ ﺁﺗﯽ!

Haqeeqat Mujh Ko raas aati nahi


حقیقت مجھ کو راس آتی نہیں ہے
غزالہ! تم فقط اک خواب ہو کیا
تمہاری جاودانہ جستجو ہے
مری جاں! تم جو ہو نایاب ہو کیا
سراپا سحر، یکسر بے نیازی
تم اِک آہنگِ بے مضراب ہو کیا

O

مری زیبُ النسائے شعر ہو تم
تمہارا سحر میری شاعری ہے
تمہاری آرزوئے جاودانہ
جمالِ جاودانِ زندگی ہے
تمہیں ہے پر دیکھا نہیں ہے
تمہارے خواب کو سجدے کیے ہیں
تمہارے ہجرِ بے وعدہ میں میں نے
تمہاری یاد کے بوسے لیے ہیں
بدن ہو تم خیالِ جاوداں کا
بدن کو پیرہن بھی چاہیے
شمیمِ جاں نوازِ یاسمن کو
نہالِ یاسمن بھی چاہیے ہے
نظر ہے خواب کی بے ساز و ساماں
نظر کو بھی تو کچھ بخشو مری جاں

Anjany hain Khaouf mujhay

انجانے ہیں خوف مجھے 
روز دھڑکتا رہتا ہوں
بے کاری کے لمحوں میں 
یادیں گنتا رہتا ہوں ...!
روز ادھوری خواہش کی 
ویرانی بڑھ جاتی ہے
ساون کی یہ بیماری 
آنکھوں کو لگ جاتی ہے
بعض اوقات محبت بھی 
اندر اندر رہتی ہے
ہجر چھپتا رہتا ہوں 
غم ظاہر کر دیتا ہے
آنکھیں تو چپ رہتی ہیں 
غم ظاہر ہو جاتا ہے

Humara Kiya hai

ہمارا کیا ہے
ہماری عادت سی ہو چکی ہے
شفق کی بے خواب وادیوں میں بھٹکتے رہنا
گئی بہاروں کو یاد کرنا
فریب خوردہ سماعتوں کے فسوں میں رہنا
افق میں تحلیل ہوتے رنگوں کو رتجگوں میں تلاش کرنا
تمام اجڑے ہوئے دیاروں میں خاک ہوتے ہوئے مزاروں پہ جا نکلنا
اور اپنے گزرے ہوئے دنوں کا حساب کرکے،کتاب کرکے ملول ہونا
ملول کرنا
ہمارا کیا ہے
ہماری عادت سی ہو چکی ہے
حروف و قرطاس سے الجھنا،الجھتے رہنا
خیال کی بے پناہ وسعت میں گرد ہوتی ہوئی مسافت کی چاپ سننا
کہیں کہیں یہ قیام کرنا،کلام کرنا
خلا کی نیلی ردا پہ جو کچھ رقم ہوا ہے،اسے سمجھنا
سمجھ کے دنیا میں عام کرنا
اور آنے والی تمام نسلوں کے نام کرنا
ہمارا کیا ہے...!!

Me khandaroon Ki zameen par

میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں پر میلے کتبے
دلوں کی ٹوٹی ہوئی صلیبیں گری پڑی ہیں
شفق کی ٹھنڈی چھاؤں سے راکھ اُڑ رہی ہے
جگہ جگہ گرز وقت کے چور ہو گئے
جگہ جگہ ڈھیر ہو گئیں ہیں عظیم صدیاں
میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں مقدس ہتھیلیوں سے گری ہے مہندی
دیوں کی ٹوٹی ہوئی لویں زنگ کھا گئی ہیں
یہیں پہ ہاتھوں کی روشنی جل کے بُجھ گئی ہے
سپاٹ چہروں کے خالی پنے کھُلے ہوئے ہیں
حروف آنکھوں کے مٹ چکے ہیں
میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں کہیں
زندگی کے معنی گرے ہیں اور گِر کے
کھو گئے ہیں

aa sanwal Mil dukhray khailein



اِدھر ادھر کی باتیں کرکے
اصلی بات گزاریں
رو رو خوشیان یاد کریں
ہنس ہنس درد سہیں
آ سانول مِل دکھڑے کھیلیں
رو رو حال کہیں
ہجر وصال کے قصے چھیڑیں
صبح سے کر دیں شام
دل کی روشنیوں سے لکھیں
رات پہ غم کا نام
اِک دوجے کی انگلی تھام کے
غم کے سنگ رہیں
-
آ سانول مِل دکھڑے کھیلیں
رو رو حال کہیں
آنکھوں کے دریا سے نکلیں
یادوں کے سو رنگ
کھینچ کھانچ کے دل لے جائیں
ہیر سیال کے جھنگ
ان رنگوں کی لہروں پر ہم
آسانول مِل دکھڑے کھیلیں
ہو کر مست یہیں
-
فرحت عباس شاہ

Kahaan Jana tha Mujh Ko

کہاں جانا تھا مجھ کو
کس نگر کی خاک بالوں میں سجانا تھی
مجھے کن ٹہنیوں سے دھوپ چُننا تھی
کہاں خیمہ لگانا تھا
مری مٹی راہِ سیارگاں کی ہمقدم نکلی
مری پلکوں پہ تارے جھلملاتے ہیں
بدن میں آگ لگتی ہے
مگر پاؤں میں خوں آ شام رستے لڑکھڑاتے ہیں
یہ کیا شیرازہ بندی ہے
یہ میری بےپری کس کُنج سے ہو کر بہم نکلی
نظر میں دن نکلتا ہے
پروں میں شام ڈھلتی ہے
مگر میں تو لہو کی منجمد سل ہوں
بدن کی کشتِ ویراں میں
یہ کس کی اُنگلیوں نے عمر بھر مجھ کو کریدا ہے
کہاں شریان میں چلتا ہوا یہ قافلہ ٹھہرا
کہ میں اس ہاتھ کی ریکھاؤں میں رنگِ حنا ٹھہرا
کہاں جانا تھا مجھ کو
کس جگہ خیمہ لگانا تھا

Mujhay Tum yaad aaty ho

مجھے تم یاد آتے ہو!
بہت زیادہ نہیں لیکن!
خوشی میں اور غم میں
بارشوں میں بھیگتے اور سردیوں کی دھوپ میں بیٹھے
پرانی ڈائیری کے حاشیوں میں تمہارے کھلکھلاہٹ سے بھرے جملوں کو پڑھ کر مسکراتے
اور تمہارے کارڈز کو ہر بار اک نئی ترتیب سے رکھتے
جنم دن پر
ہر اک تہوار پر
سچ میں ۔۔۔
مجھے تم یاد آتے ہو
بہت زیادہ نہیں لیکن
مری ہر سوچ میں دھڑکن میں
سانسوں کے تسلسل میں
مجھے بھولے ہوئے ساتھی
مجھے تم یاد آتے ہو
(مری تکمیل تم سے ہے) سے ایک نظم
-
عاطف سعید

Kabhi yaad aao to is tarah

کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑ ہے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
-
"محسن نقوی

Sun Saanson K Sultan piya

سُن سانسوں کے سلطان پیا
ترے ہاتھ میں میری جان پیا
میں تیرے بن ویران پیا
تو میرا کُل جہان پیا
مری ہستی، مان، سمان بھی تو
مرا زھد، ذکر، وجدان بھی تو
مرا، کعبہ، تھل، مکران بھی تو
میرے سپنوں کا سلطان بھی تو
کبھی تیر ہوئی، تلوار ہوئی
ترے ہجر میں آ بیمار ہوئی
کب میں تیری سردار ہوئی
میں ضبط کی چیخ پکار ہوئی
مرا لوں لوں تجھے بلائے وے
مری جان وچھوڑا کھائے وے
ترا ہجر بڑا بے درد سجن
مری جان پہ بن بن آئے وے
مری ساری سکھیاں روٹھ گئیں
مری رو رو اکھیاں پھوٹ گئیں
تجھے ڈھونڈ تھکی نگری نگری
اب ساری آسیں ٹوٹ گئیں
کبھی میری عرضی مان پیا
میں چپ، گم صم، سنسان پیا
میں ازلوں سے نادان پیا
تو میرا کُل جہاں پیا

Saibaan Tera Rog Muhobat

سائیاں تیرا روگ محبت
سائیاں تیرا جوگ محبت
سائیاں میرے دریا سُوکھے
سائیاں لہجے پھیکے رُوکھے
سائیاں کر لے من کی باتیں
سائیاں بیت نہ جائیں راتیں
سائیاں دیکھ میں ایک اِکّلی
سائیاں تیری کملی، جھلّی
سائیاں خواب پرو دیتی ہیں
سائیاں آنکھیں رو دیتی ہیں
سائیاں اپنی بستی لے چل
سائیاں میری مستی لے چل
سائیاں اپنی کِرپا کر دے
سائیاں نین کٹورے بھر دے
سائیاں اپنی دید کرا دے
سائیاں مجھ کو عید کرا دے
سائیاں تجھ پر واری ہو گئی
میں سارے کی ساری ہو گئی
سائیاں آج تمہاری ہوگئی
میں بھی راج کماری ہوگئی

Log meilon me bhi gum ho kar

لوگ میلوں میں بهی گم ہو کر ملے ہیں بارہا
داستانوں کے کسی دلچسپ سے اک موڑ پر
-
یوں ہمیشہ کے لئے بهی کیا بچهڑتا ہے کوئی
-
گلزار

Suno Tum Kon ho meri

سنو تم کون ہو میری !
بتاتی کیوں نہیں مجھ کو
کہو اے دل رُبا کچھ تو
ذرا یہ بھید تو کھو لو
سہانا خواب ہو میرا
یا کوئی آرزوئے دل
کہ تم انجان ہو کر بھی
بہت مانوس لگتی ہو !
سنو اے اجنبی خواہش
یہ میرے دل کے بام و در
شکستہ ہیں ، بریدہ ہیں !
یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں
یہاں کچھ روگ رہتے ہیں
مبادا بے خیالی میں !
کِیا ہو منتخب تم نے
یہ درد انگیز سا رستہ
ابھی بھی وقت ہے باقی
ابھی بھی سوچ سکتی ہو
شکایت پھر نہ کوئی ہو
کہ الفت کا سفر جاناں
اگردشوار نکلا تو
کہیں اے ناز نیں تم کو
کوئی گھاؤ نہ دے جائے
کہ یہ جو زخم ہوتے ہیں
بہت بے چین رکھتے ہیں
کہ جن کو وقت کا مرہم
اگر بھرنا کبھی چاہے
تو بے حد دیر لگتی ہے
بہت تکلیف ہوتی ہے
یہ گھاؤ بھر بھی جائیں تو
نشانی چھوڑ جاتے ہیں
کہانی چھوڑ جاتے ہیں
ابھی بھی سوچ سکتی ہو
کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے
کہ پھر دوگام چلنا بھی
بہت مشکل نہ ہو جائے
محبت کی مسافت میں
عجب سے موڑ آتے ہیں
مسافر ہی سرِ منزل
ارادہ تو ڑ دیتے ہیں
سنو ! اے اجنبی خواہش
اگر اب بھی ارادہ ہے
اِسی رستے پہ چلنے کا
اِسی آتش میں جلنے کا
تو چپکے سے چلے آو
مری آغوش حاضر ہے
تمھارے ہی لیے جاناں
چلو یہ عہد کرتے ہیں
مصیبت ہو کہ راحت ہو
سبھی کچھ ساتھ جھیلیں گے
شبِ ظلمت مقدر ہو
کہ تپتی دھوپ سر پر ہو
نہیں ہم ساتھ چھوڑیں گے
نہیں ہم ہاتھ چھوڑیں گے !

Mujhay aur Kahein lay chal sanwel

مجھے اور کہیں لے چل سانول
جہاں رات کبھی بھی سوئی نه ہو
جہاں صبح کسی پے روئی نه ہو
جہاں هجر نے وحشت بوئی نه ہو
جہاں کوئی کسی کا کوئی نه ہو
مجھے اور کہیں لے چل سانول
جہاں شہر ہوں سارے ویرانے
جہاں لوگ سبھی ہوں بیگانے
جہاں سب کے سب ہوں دیوانے
جہاں کوئی ہمیں نہ پہچانے
مجھے اور کہیں لے چل سانول
جہاں نفرت دل میں بس نہ سکے
جہاں کوئی کسی کو ڈس نہ سکے
جہاں کوئی کسی پے ہنس نہ سکے
جہاں کوئی بھی گھنجل کس نہ سکے
مجھے اور کہیں لے چل سانول
جہاں درد کسی کو راس نہ ہو
جہاں کوئی کبھی اداس نہ ہو
جہاں ظلمت کی بو باس نہ ہو
جہاں تو بھی زیادہ پاس نہ ہو
مجھے اور کہیں لے چل سانول۔۔!!
-
فرحت عباس شاہ

Saibaan zaat adhori hai

سائیاں میرے اچھے سائیاں
سائیاں ذات ادھوری ہے
سائیاں بات ادھوری ہے
سائیاں رات ادھوری ہے
سائیاں مات ادھوری ہے
دشمن چوکنا ہے لیکن
سائیاں گھات ادھوری ہے
سائیاں تیرے گاوں میں
دکھ کی سیاہ فضاوں میں
نامانوس ہواؤں میں
لوگوں اور بلاؤں میں
قید ہوے ہیں مدت سے
ہم بےکار دعاؤں میں
سائیاں رنج ملال بہت
دیوانے بےحال بہت
قدم قدم پر جال بہت
پیار محبت کال بہت
اور اسی عالم میں سائیاں
گزر گے ہیں سال بہت
سائیاں ہر سو درد بہت
موسم موسم سرد بہت
راستہ راستہ گرد بہت
چہرہ چہرہ زرد بہت
اور ستم ڈھانے کی خاطر
تیرا اک اک فرد بہت
سائیاں تیرے شہر بہت
گلی گلی میں زہر بہت
خوف زدہ ہے دہر بہت
اس پر تیرا قہر بہت
کالی راتیں اتنی کیوں
ہم کو ایک ہی پہر بہت
سائیاں دل مجبور بہت
روح بھی چور و چور بہت
پیشانی بےنور بہت
اور لمحےمغرور بہت
ایسے مشکل عالم میں
تو بھی ہم سے دور بہت
سائیاں راہیں تنگ بہت
دل کم ہیں اور سنگ بہت
پھر بھی تیرے رنگ بہت
خلقت ساری تنگ بہت
سائیاں تم کو آتے ہیں
بہلانے کے ڈھنگ بہت
سائیاں میرے تارے گم
رات کے چند سہارے گم
سارے جان سے پیارے گم
آنکھیں گم نظارے گم
ریت میں انسو ڈوب گے
راکھ میں ہوے شرارے گم
سائیاں میری راتیں گم
ساون اور برساتیں گم
لب گم گشتہ باتیں گم
بینائی گم جھاتیں گم
جیون کے اس صحرا میں
سب جیتں ، سب ماتیں گم
سائیاں جان بیمار ہوئی
صدموں سے دوچار ہوئی
ہر شے سے بےزار ہوئی
پریتم دل ازار ہوئی
ہر اک سپنا سنگ ہوا
ہر خواہش دیوار ہوئی
سائیاں رشتے ٹوٹ گئے
سائیاں اپنے چھوٹ گئے
سچ گئے اور جھوٹ گئے
تیز مقدر پھوٹ گئے
جانے کیسے ڈاکو تھے جو
لٹے ہوؤں کو لوٹ گئے
سائیاں خواب اداس ہوئے
سرخ گلاب اداس ہوئے
دل بے تاب اداس ہوئے
دور سحاب اداس ہوئے
جب سے صحرا چھوڑ دیا
ریت ، سراب اداس ہوئے
سائیاں تنہا شاموں میں
چنے گے ہیں باموں میں
چاہت کے الزاموں میں
شامل ہوے غلاموں میں
اپنی ذات نہ ذاتوں میں
اپنا نام نہ ناموں میں
سائیاں ویرانی کے صدقے
اپنی یزدانی کے صدقے
جبر انسانی کے صدقے
لمبی زندانی کے صدقے
سائیاں میرے اچھے سائیاں
اپنی رحمانی کے صدقے
سائیاں میرا درد گھٹا
سائیاں میرے زخم بجھا
سائیاں میرے عیب مٹا
سائیاں کوئی نوید سنا
اتنے کالے موسم میں
سائیاں اپنا اپ دیکھا
سائیاں میرے اچھے سائیاں
سائیاں میرے دولے سائیاں
سائیاں میرے پیارے سائیاں
سائیاں میرے بیبے سائیاں
ـــــــــــــــــــ
میرے من میں دیپ جلا سائیں
کبھی رات اندھیری بھی ٹوٹے
کبھی صبح صادق بھی پھوٹے
کبھی چمکے تیری ضیا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
ہو رنج بہاراں جیسا بھی
ہو بادو باراں جیسا بھی
ہو جتنی تیز ہوا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
کبھی جھوٹ نہ بول سکو مولا
کبھی کفر نہ تول سکومولا
میں کروں ہمیش وفا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
جبار قہر خدا سائیں
رحمٰن رحیم سدا سائیں
میرے بےپروا خفا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
سب پردے آپ ہٹا سائیں
سب ظلمت آپ مٹا سائیں
سب راستے آپ دیکھا سائیں
میرے من میں دیپ جلا سائیں
میری تجھ سے یہی دعا سائی

Be His Larkiyan


بے حس لڑکیاں
دوستیاں اور دلبریاں
موسموں کی طرح
بدلتی رہتی ہیں
وہ اکثر اپنے رستے بدل دیتی ہیں
اپنی جوانی اور حسن کے دعوے
اپنے پرس میں لے کر گھومتی ہیں
جاتے جاتے
اشک بہاتی آنکھوں کے لیے
ٹشو پیپر کی خیرات بھی نہیں دیتیں


(نظم، بے حس لڑکیاں)

Mujh sy soch samjh kar naraaz hona

مجھ سے سوچ سمجھ کر ناراض ہونا
اڑھائی سال تک بولا نہیں تھا __
میں جب پیدا ہوا تھا

Phir Us K baad tum sy kuch nahi kaha

پھر اسکے بعد تم سے کچھ نہیں کہنا
پھر اسکے بعد جو بھی بات ہوگی جھوٹ پہ مبنی
اسے حق بات کہنے کا ارادہ ہی نہیں 
پھر اسکے بعد ترک آرزو بھی کر نہیں پائے تو پھر بھی
خواب کے موسم لٹانے کا کبھی تم سے کریں گے ہم تقاضا ہی نہیں جاناں
پھر اسکے بعد خوشبو ، چاندنی یا رات کی رانی ، ھیں بے معانی
سمجھ لیں گے درو بام محبت پر کبھی ہم تھے ستادہ ہی نہیں جاناں
بھلے یہ ہو
پھر اسکے بعد کی ساری کہانی جھوٹ کی بیساکھیوں کے آسرے انجام تک پہنچے
ہمیں اس سے نہیں مطلب ----
مگر جاتے ہوئے انجان رستوں پر ، 
فقط اک بات کہنے کی جسارت کرنا چاہوں گی
بس اتنی سی وضاحت کرنا چاہوں گی
تمھاری اور میری اس کہانی میں
محبت آخری اور دائمی سچ ھے -----

Bahot sy aam logon me

بہت سے عام لوگوں میں
بہت ہی عام سے ہیں ہم
کہ بالکل شام سے ہیں ہم
کہ جیسے شام ہوتی ہے
بہت چپ چاپ اور خاموش
بہت ہی پر سکوں لیکن
کسی پہ مہرباں جیسے
مگر بے چین ہوتی ہے
کوئی ہو رازداں جیسے
خفا صبح کی کرنوں سے
کہ جیسے شام ہوتی ہے
یوں بالکل شام سے ہیں ہم
بہت ہی عام سے ہیں ہم
مگر ان عام لوگوں میں
دل حساس رکھتے ہیں
بہت کچھ خاص رکھتے ہیں
اگرچہ عام سے ہیں ہم....!

Jalay bujhay khayal

جگہ نہیں اود ڈائری میں
یہ ایش ٹرے پوری بھر گئی ہے
بھری ہوئی ہے
جلے بجھے ادھ کہے خیالوں کی راکھ و ُبو سے
خہال جو پوری طرح سے جلے نہیں تھے
مسل دیا یا دبا دیا تھا
بجھے نہیں وہ
کچھ ان کے ُٹرے پڑے ہوئے ہیں
بس ایک دو کش ہی لے کے
کچھ مصرے رہ گئے تھے
کچھ ایسی نظمیں جو توڑ کر پھینک دی تھی اس میں
دھواں نہ نکلے
کچھ ایسے اشعار
جو میرے برینڈ کے نہیں تھے
وہ ایک ہی کش میں کھانس کر
ایش ٹرے میں ِگھس کے بجھا دیے تھے
اس ایش ٹرے میں
بلیڈ سے کاٹی رات کی نبض سے ٹپکتے سیاہ قطرے بجھے ہوئے ہیں
چاند کی تراشیں
جو رات بھر ِچھیل ِچھیل کر پھینکتا رہا ہوں
گھڑی ہوئی پنسلوں کے چھلکے
خیال کی شدتوں سے جو ٹوٹتی رہی ہیں
اس ایش ٹرے میں
ہیں تیلیاں ہیں کچھ کٹے ہوۓ نام اور نمبروں کی
جلائیں تھی جن سے چند نظمیں
دھواں ابھی تک دیاسلائ سے جھڑ رہا ہے
الٹ پلٹ کے تمام صفحوں میں جھانکتا ہوں
کہیں کوئی ٹُرا نظم کا بچ گیا ہو تو
کش لگا لوں پھر سے
طلب لگی ہے
یہ ایش ٹرے پوری بھر گئی ہے!
(گلزار)

Jin ankhon par tum marty thay

جن آنکھوں پر تم مرتے تھے
تم جن کو پہروں تکتے تھے

جن کو کہتے تھے دیپ ہیں یہ
تم جن کو تارہ لکھتے تھے

وہ آنکھیں جن میں تم اپنے
خوابوں کو رکھا کرتے تھے

کیا تم کو خبر ہے وہ آنکھیں
جس دن سے تم سے بچھڑی ہیں
چھپ چھپ کے کتنا روتی ہیں

-
عاطف سعید

Umeed

امید بڑی ہی چکنی ڈلی ہے

پکڑے رہو تو گلتی ہے
ملنے لگو تو ہاتھ سے اور پھسلتی ہے
اوپر سے برستا وقت ہے پل کو رکتا نہیں
-
صابن کی طرح ہی جھاگ دکھا کر
یہ بھی مہینہ خرچ ہوا
-
گلزار

Muhobat Kiya hai Jan e Jan

محبت کیا ہے یہ جاناں
چلو تم کو بتاتی ہوں
جہاں تک میں سمجھ پائی
وہاں تک ہی بتاتی ہوں
محبت آسمانوں سے اترتی ایک آیت ہے
میرے رب کی عنایت ہے
کہیں لے جائے موسیٰ کو
تجلی رب کی دکھلانے
کہیں محبوب کو عرشوں پہ اپنے رب سے ملوانے
کہیں سولی چڑھاتی ہے
کسی منصور سرکش کو
کہیں یہ بیٹھ کر روتی ہے پھر شبیر بے کس کو
لگا کر آگ پانی میں
ہوا میں زہر گھولے گی
کرے گی رقص شعلوں پر
مگر کب بھید کھولے گی
کہیں یہ ایڑیاں رگڑے .... تو زم زم پھوٹ پڑتے ہیں
نظر کر دے جو پتھر پر
تو پتھر ٹوٹ سکتے ہیں
کہیں یہ قیس ہوتی ہے
کہیں فرہاد ہوتی ہے
کہیں سر سبز رکھتی ہے
کہیں برباد ہوتی ہے
کہیں رانجھے کی قسمت میں لکھی اک ہیر ہوتی ہے
یہ بس تحریر ہوتی ہے
کہاں تقدیر ہوتی ہے ....؟
کہیں ایثار ہوتی ہے
کہیں سرشار ہوتی ہے
وہیں یہ جیت جاتی ہے
جہاں یہ ہار ہوتی ہے
محبت دل کی دیواروں سے لپٹی کائی جیسی ہے
محبت دل نشیں وادی میں اندھی کھائی جیسی ہے
سنو .....!!
تم بھی محبت کو کہیں ہلکا نہیں لینا
اگر اپنی پہ آ جائے
تمہیں صحرا نشیں کر دے
اٹھا کر آسمانوں سے تمہیں پل میں زمیں کر دے
کسی کو دان دیتی ہے
کسی کی جان لیتی ہے
اگر کندن میں ڈھالے تو
سمجھ لینا یہ خالص ہے
من و تو ناں بھلاے جو
تو پھر سمجھو کہ ناقص ہے
دل _ برباد یہ روشن تمہارا کرکے چھوڑے گی
لکھے گی درد ماتھے پر
ستارا کر کے چھوڑے گی...!!!

Ajab Ye zid tumhari hai

کہاں کی عقلمندی ھے؟
هماری بےلوث محبت میں.
انا کو بیچ میں لانا.
عجب یه ضدتمھاری ھے.
که بھلےغلطی تمھاری ھو.
منانے میں ھی آجاؤں.
کبھی تم نے یه سوچاھے؟
تیری بےرخی،اور
بےوجه روٹھنے سے.
میں کتناھرٹ ھوتاھوں.
ھزاروں وسواسے اور خدشے.
دل میں پےدرپے آتے ھیں.
که شایداب کےباریه رشته ٹوٹ نه جاۓ.
گھرآبادھونےسےپہلے،
ٹوٹ کربکھرےاور
ویران نه ھو جائے۔
صرف مکاں ره جاۓ.
جسکے درودیوار سے
وحشت ٹپکتی ھو..
سواتنی سی گزارش ھے
وه گھرجسکے ھر اینٹ،
محبت سے رکھی ھو.
اسے وحشت کی علامت سمجھ کر،
جِنوں اور جانواروں کے آشیانه بنے سے پھلے.
انا کو چھوڑ دو جاناں!
میرے پاس لوٹ آؤ جاناں...!!!

Shaam K Pech O Kham

شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اش...